نائن الیون کے بعد احساس ہوا کہ خطرے کے پیمانے بدل گئے ہیں: ٹونی بلیئر
4 ستمبر 2010بلیئر کا کہنا ہے کہ انتہا پسند مسلمان سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کرتے ہیں وہ حق بجانب ہے۔ اس میں کیمیاوی، حیاتیاتی اورجوہری ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل ہے۔ سابق برطانوی وزیر اعظم نے جوماضی میں افغانستان اور عراق کی جنگ میں اہم کردار ادا کر چُکے ہیں اس امر کی تردید کی ہے کہ اُن کی پا لیسیاں انتہاء پسندی میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔ بلیئر سے انٹرویو میں جب یہ پوچھا گیا کہ چیچنیا، کشمیر، فلسطین، عراق اور افغانستان کے عوام کی ان کے ملکوں میں غیر ملکی قبضے کے خلاف جاری مذاحمت کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں، تو اُن کا کہنا تھا کہ مغربی طاقتوں کی پالیسیاں دراصل اسلامی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے ہیں کیوں کہ یہ رجعت پسند، بدشعار اور پسماندہ ہے۔
ٹونی بلیئر کا کہنا ہےعراق میں القاعدہ کا مقصد بغداد سے امریکی فوج کو نکالنا نہیں تھا بلکہ اُس حکومت کو غیر مستحکم کرنا تھا جو عوامی ووٹ سے برسراقتدار آئی تھی۔ ٹونی بلیئر جو اب مشرق وسطیٰ کے تنازعہ کے حل کے لئے سرگرم چار فریقی گروپ کے خصوصی ایلچی ہیں نے کہا ہے کہ ایران ریڈیکل یا انتہا پسند اسلام کی پشت پناہی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہےاور یہ انتہائی ضروری تھا کہ تہران حکومت کو جوہری ہتھیار نہ بنانے دیا جائے۔ بلیئر کے بقول ’ ہمیں ایران کو یہ واضح پیغام دینا ہوگا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا اور ہم اُسے ایسا نہیں کرنے دیں گے‘۔ بلیئر نے کہا ہے کہ وہ ملٹری ایکشن کی وکالت نہیں کرتے تاہم اس کے سوا کوئی چارہ بھی نظر نہیں آتا۔
بلئیر نے کہا کہ نائن الیون کے واقعے نے خارجہ پالیسی کے بارے میں اُن کے خیالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ اُن کے بقول اُس وقت انہیں احساس ہوا کہ خطرے کے پیمانے میں تبدیلی آ گئی ہے۔ بلیئر نے گزشتہ جمعرات کو واشنگٹن میں مشرق وسطیٰ کےتنازعے کے حل کے لئے ہونے والے براہ راست مذاکرات کے پس منظر میں کہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے بارے میں پرامید ہیں۔
سابق برطانوی وزیر اعظم کا ڈبلن سے براہ راست نشر ہونے والا یہ ٹیلی وژن انٹرویو گزشتہ شب انٹر ٹینمنٹ شوز کے پرائم ٹائم پرنشر ہوا اور دیکھا گیا۔ اُس وقت ڈبلن اسٹوڈیوزکے باہرایک چھوٹے مظاہرے کا انعقاد بھی ہوا۔
تحریر: کشور مصطفیٰ
ادارت: عصمت جبیں