ناروے میں قتل عام کے ذمہ دار آندرس برییوک کی صلیبی جنگ
25 جولائی 2011آندرس کو جن الفاظ سے نفرت ہے ان میں کثیر الثقافتی معاشرہ بھی شامل ہے۔
ناروے میں بائیں بازو کے نوجوانوں کے سمر کیمپ میں خون کی ہولی کھیلنے اور سرکاری دفاتر کی عمارت کو بم حملے کا نشانہ بنانے والے 32 سالہ شخص سے کسی قسم کے اظہار ندامت کی توقع رکھنا عبث ہے۔
ہلاکت خیز مہم شروع کرنے سے چند روز قبل اس نے سرقہ شدہ مواد پر مبنی آن لائن منشور میں لکھا کہ قرون وسطٰی کے صلیبی جنگجوؤں کا نائٹس ٹیمپلر نامی آرڈر 2002 ء میں لندن میں دوبارہ وضع کیا گیا تھا۔
آندرس بیہرنگ، جو اس وقت دہشت گردی کے الزام میں پولیس کی حراست میں ہے، نے لکھا کہ اس آرڈر کا مقصد مقامی حقوق کی مسلح تنظیم اور صلیبی تحریک (جہاد مخالف تحریک) بنانا ہے۔ اس کا لکھنا تھا کہ ایک بار جب آپ نے حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا ضروری ہے ورنہ حملے کا مطلوبہ نظریاتی اثر کمزور پڑ جائے گا۔
اس کی تحریر سے اس کے ذہن کی عکاسی ہوتی ہے، جس پر جنگجویانہ تصوراتی کمپیوٹرکھیلوں کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اس نے لکھا کہ اس نے دو فیس بک اکاؤنٹس کے ذریعے ہزاروں افراد کو اپنا منشور بھیجا۔
خدا کے سامنے دعا
اس کا کہنا ہے کہ اس نے11 جون کو پہلی بار خدا کے سامنے دعا کی کہ اگر وہ مارکس اور اسلام کے پیروکاروں کے گٹھ جوڑ کو یورپ پر قبضہ جمانے اور عیسائیت کو مٹنے نہیں دینا چاہتا تو اسے یورپی عیسائیت کو فتح دلانے کے لیے برسر پیکار جنگجوؤں کی مدد کو یقینی بنانا ہوگا۔ دو روز بعد اس نے دور دراز علاقے میں ایک بم کا تجربہ کیا، جو کامیاب رہا۔
پندرہ سو صفحات پر مبنی دستاویز کے بیشتر حصے دیگر دائیں بازو اور اسلام مخالف دستاویزات سے نقل کر کے لگائے گئے ہیں۔
برییوک کا کہنا ہے کہ وہ ایسے تارکین وطن کے خلاف نہیں، جو معاشرے میں ضم ہونا چاہتے ہیں اور اس کا غصہ یورپ کی آزاد خیال سیاسی مقتدرہ پر ہے، جو اس کے نزدیک یورپ کی تباہی کو فروغ دے رہی ہے۔ برییوک نے لکھا ہے کہ اس کی سوچ میں بڑی تبدیلی1999ء میں کوسووو تنازعے میں سربیا پر بمباری کے نیٹو آپریشن میں ناروے کی شمولیت کے بعد آئی۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عدنان اسحاق