یہ محرم کا مہینہ تھا، جب ساہیوال شہر کے سب سے بڑے مائی شاہ قبرستان کے باہر خانہ بدوشوں نے جھونپڑیاں لگائیں اور لوگوں کے پیاروں کی پرانی قبروں کی مرمت کا کام سنبھالا۔ یکم سے دس محرم تک ان کا کام خوب چلا اور پھر دس محرم کی رات وہ سب یہاں سے کوچ کر گئے۔ گیارہ محرم کی صبح اچانک انہیں خانہ بدوشوں کی ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کے لاپتہ ہونے کی خبر ملی اور شام کو اس کی لاش اسی قبرستان کے باہر پڑی تھی۔ وہ لڑکی نشے کی عادی تھی اور دس کی رات دو لڑکوں کے ساتھ نشہ کی لالچ میں کہیں چلی گئی تھی۔ وہیں اس کے ساتھ زیادتی کی گئی اور قتل کر کے لاش کو مائی شاہ قبرستان کے باہر پھینک دیا گیا۔ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ایسے ہی واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ کچرے میں کاغذ چنتا آدمی ہو یا مہنگے ترین تعلیمی ادارے میں پڑھتا نوجوان، دونوں کو نشے کی عادت ہو چکی ہے، بس معیار کا فرق ہے۔
لاہور شہر کے علاقے ٹھوکر نیاز بیگ میں واقع فلائی اوورز ہوں یا شہر اقتدار اسلام آباد کے کھنہ پل کا علاقہ آپ کو نشے میں دھت پاکستان کا مستقبل فٹ پاتھوں، سڑکوں، خالی پلاٹوں اور میٹرو ٹرین کے سٹیشنز پر پڑا ملے گا۔ ملک میں منشیات کی روک تھام کے لیے مرکزی اور صوبائی ادارے کام کر رہے ہیں لیکن اس روک تھام میں کامیابی نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں اینٹی نارکوٹکس فورس کا دوسرے اداروں کی نسبت کامیابی کا تناسب کچھ بہتر ہے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر پولیس کی ذمہ داری بڑی اہم ہے، چاروں صوبوں کی پولیس بھی اپنا کام کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود منشیات کی ترسیل اور ڈیمانڈ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کنسلٹنٹ انسداد منشیات مہم سید ذوالفقار حسین کہتے ہیں کہ پاکستان اب منشیات کے استعمال اور سپلائی کے حوالے سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے لگا ہے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد منشیات کا سہارا لے کر زندگی سے فرار چاہتے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2013ء کے نیشنل سروے ان ڈرگز میں ملک میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 67 لاکھ تھی، جس میں صوبہ پنجاب منشیات کے استعمال میں دوسرے صوبوں سے آگے تھا۔ ہیروئن چرس بھنگ کوکین اور سکون آور ادویات کا اس سروے میں ذکر شامل ہے۔ اب 2023ء میں نشہ کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافے سے ہر شخص پریشان دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ افراد منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔ملک میں سب سے زیادہ آئس، ہیروئن، چرس، شراب، ایل ایس ڈی، ایس ٹی سی پارٹی ڈرگز، بھنگ، افیون سکون آور انجیکشن اور گولیوں کا استعمال عام ہے۔
صائمہ ساہیوال میں ایف جے میٹا فزیکل کے نام سے نشے کے عادی افراد کے لیے ایک بحالی مرکز چلا رہی ہیں اور پچھلے دو سالوں میں اپنی مدد آپ کے تحت تقریبا 125 نشہ کے عادی نوجوانوں کو واپس زندگی کی جانب لانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ صائمہ کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق عارف والا، اوکاڑہ اور پاکپتن سمیت ساہیوال ریجن میں 20,000 سے زائد افراد نشہ آور انجیکشن لگا رہے ہیں، ''زیادہ تر 18سے 32 سال کی عمروں کے نوجوان منشیات کے استعمال کا شدید شکار ہیں۔ لیکن یہاں صرف نشے کی لت چھڑوانا اور اس سے آگاہی کی مہم چلانا ہی اہم نہیں ہے بلکہ ذہنی صحت اور ڈپریشن کے حوالے سے آگہی دینا زیادہ اہم ہے۔‘‘
ایک رپورٹ کے مطابق 90 لاکھ سے زائد مریض منشیات کے استعمال کے مسائل کا شکار ہیں اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان بھر میں تمام نگہداشت کی سہولیات میں صرف 500 ماہر نفسیات اور صرف 30,000 بستر ہیں۔ نوجوان میں نشہ کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں بے روزگاری، آئیڈیل کا نہ ملنا، دوستوں کی بری صحبت، خاندانی نظام میں انتشار، تعلیم کا پریشیر اور خاندان میں نشہ کا استعمال شامل ہیں۔ لیکن ملک میں کئی سالوں سے جاری سیاسی اور معاشی عدم استحکام بھی نشہ کے بڑھنے کی بڑی وجہ سامنے آئی ہے۔ سید ذوالفقار کہتے ہیں سکون آور انجیکشن، کرسٹل آئس، کوکین، ہیروئن اور چرس کے استعمال سے جڑے دیگر سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشرے میں خلع اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے بڑے شہروں میں بے گھر اور نامعلوم منشیات کے عادی افراد سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر نشہ کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے لاوارث اور بے گھر افراد کی لاشیں فٹ پاتھوں، پارکوں اور سڑکوں سے ملتی ہیں۔ منشیات کے خلاف تربیت فراہم کرنے والا ایک ادارہ ڈرگ ایڈوائزری ٹریننگ ہب نشے کی لت کے شکار افراد کی ہلاکتوں، منشیات کے نئے رحجانات پر ہر ماہ رپورٹ جاری کرتا ہے، جس میں حیران کن انکشافات اور واقعات کو سامنے آتے رہتے ہیں۔ لاہور شہر کی سڑکوں پر ہر ماہ ہزاروں سکون آور انجیکشن فروخت ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر مردوں کے ساتھ خواتین بھی سرے عام نشہ کرتی ہیں۔ جنوری میں 55،فروری میں 42 اور مارچ میں 31 بے گھر منشیات کے عادی افراد کی اموات ہوئیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہےکہ لاہور شہر منشیات کے استعمال کے حوالے سے کراچی کے بعد دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ منشیات کے رحجان میں اضافہ طلبا ہوسٹلوں اور چائے خانوں میں بھی پہنچ گیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ داتا دربار، بھاٹی گیٹ، لاری اڈہ اور ٹبی سٹی اور قلعہ گوجر سنگھ کے علاقوں میں نامعلوم منشیات کے عادی افراد کی اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ منشیات کے عادی افراد کی بحالی اور نئے آنے والے افراد کو نشے سے روکنے کے لیے حکومتی سطح پر کوئی بڑا یا علیحدہ ہسپتال نہ بن سکا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ پنجاب میں انسداد منشیات قوانین، پولیس اور اینٹی نارکوٹکس کے اداروں کی موجودگی کے باوجود بھی ملک کی عام شاہراؤں سے لے کر تعلیمی اداروں تک ہر قسم کی نشہ آور چیزیں با آسانی دستیاب کیوں ہیں؟ کیا نوجوان نسل کی ذہنی اور جسمانی صحت حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔