نواز شریف کو سات سال کی سزائے قید
24 دسمبر 2018آج پیر چوبیس دسمبر کو احتساب عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے فوری بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت کے مطابق نواز شریف کے وکلاء یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ سعودی عرب میں العزیزیہ سٹیل مل لگانے کے لیے ان کے پاس سرمایہ کہاں سے آیا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ نواز شریف کو اس کیس میں جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے مطابق عدالت نے نواز شریف کو جرمانہ بھی کیا ہے تاہم جرمانے کی رقم کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ شریف خاندان کے مطابق نواز شریف پر یہ مقدمات بے بنیاد ہیں، جو ایک ’سیاسی سازش‘ ہیں۔
العزیزیہ سٹیل مل کے بارے میں شریف خاندان کا موقف یہ ہے کہ یہ مل سابق وزیر اعظم کے والد میاں محمد شریف نے 2001ء میں سعودی عرب میں لگائی تھی۔ اس کے انتظامی امور نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کے ہاتھوں میں تھے۔ نواز شریف کے بقول انہوں نے العزیزیہ کی ملکیت کا کبھی بھی دعویٰ نہیں کیا۔ تاہم اس مقدمے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم یعنی (جے آئی ٹی) کے مطابق نواز شریف ہی العزیزیہ کے مالک ہیں۔
آج احتساب عدالت کے فیصلے سے قبل مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہا تھا کہ یہ بڑی بدقسمتی ہو گی کہ نواز شریف کو سزا سنا دی جائے۔
نواز شریف کو پرتعیش اپارٹمنٹس خریدنے کی وجہ سے جولائی میں دس برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا، جس کے بعد ستمبر میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
نواز شریف کو سزا سنائے جانے کے فوری بعد مختلف شہروں میں ہنگامہ آرائی شروع ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ عدالت کے باہر پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں کی خبریں بھی ملی ہیں۔
اٹھائیس جولائی 2017ء کو ملکی عدالت عظمیٰ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ عدالت نے نیب کو یہ احکامات بھی جاری کیے تھے کہ وہ نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز، داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔