نوجوانوں کا عالمی دن، پاکستان کی صورتحال
12 اگست 2013اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کل آبادی کا نصف نوجوانوں پر مشتمل ہے یعنی 15 سے 30 سال کے افراد کی عمر کی تعداد 40 فیصد سے زائد ہے۔ نوجوانوں کو ملک کا مستقبل تو کہا جاتا ہے تاہم حالات یہ ہیں کہ ملکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 15 سے 24 سال کی عمر کے 9 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ دوسری جانب عالمی اداروں کے مطابق یہ شرح 16 فیصد ہے۔ ایسے حالات میں پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے یا نوکریاں کرنے کی خواہاں ہے۔
حال ہی میں MBA کی سند حاصل کرنے والے ایک نوجوان کمیل کا کہنا ہے، ’’مجھے اگر موقع ملے پاکستان سے باہر جانے کا تو میں بھی ملک سے باہر جاؤں گا ۔ اگر کوئی بہت اچھی یا یوں کہیں کوئی بہتر موقع بھی نطر آئے تو میں ضرور پاکستان سے باہر جانا چاہوں گا۔‘‘ اسی طرح منظر عالم بھی ان نوجوانوں میں شامل ہیں جن کا ماننا ہے کہ ملک میں زندگی سنوارنے کے مواقع نہیں ، ’’ہمارے ملک میں نوکری کے زیادہ مواقع نہیں ہیں۔ اگر مجھے کہا جائے تو میں تو ملک سے باہر چلا جاؤں کیونکہ ہمارے یہاں تعلیم یافتہ لوگوں کی کوئی قدر نہیں ہے۔ ‘‘
پاکستان اوور سیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں اب تک 36 ہزار پاکستانی نوجوان، جن میں ڈاکٹرز، انجینئر اور اساتذہ شامل ہیں، بیرون ملک اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے ہجرت کر چکے ہیں۔ جبکہ ماہرین کے غیر سرکاری اندازوں کے مطابق یہ تعداد 45 ہزار سے کہیں زیادہ پہنچ چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں سوا دو کروڑ افراد اقتصادی بحران کے باعث وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں جن میں سے اکیس لاکھ نوجوان ہیں۔ اپنی منزل پر پہنچنے تک قوانین اور مقامی ثقافت سے ناواقفیت کی بنا پر ان نوجوانوں کو نسل پرستی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حقارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ملک میں امن کے قیام کے لیے کوشاں نوجوانوں کی ایک تنظیم، پاکستان یوتھ الائنس، کی بانی مریم انور کے خیال میں گو کہ نوجوانوں کو ملک میں اس طرح کے مواقع میسر نہیں جن کا وہ فائدہ اٹھا سکیں، تاہم دیار غیر میں جا کر نوجوان جو کام کرتے ہیں اپنے ملک میں کریں تو بہتری کے آثار ضرور ظاہر ہوں گے، ’’ ہمارے یہاں ایک چیز جو بہت زیادہ منفی ہے وہ یہ ہے کہ روزگار کے لیے یہ نوجوان دوسرے ملک جاتے ہین اور نوکری نہ ملے تو چھاڑو لگانے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ کام کرتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے کیونکہ یہاں پر سماجی سوچ میں فرق ہے۔ اگر نوجوان کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے میں عار محسوس کرنے کی اس روش کو ختم کر دیں تو ملک ضرور ترقی کرے گا۔‘‘
مریم کے مطابق اس وقت پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان متحد ہو کر خود میں ملک کے لیے کام کرنے کا جذبہ بیدار کریں، ’’ہمارے ملک میں اس وقت غیر مراعات یافتہ طبقے کے نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے جو ضائع ہو رہی ہے۔ یہاں کے حالات کے باعث مایوسی بہت زیادہ ہے، گن کلچر ہے، منشیات کا کلچر ہے تو اس میں نوجوانوں کی بہت توانائی ضائع ہو رہی ہے۔ اور یہ مثبت توانائی میں اسی وقت تبدیل ہو گی جب یہ نوجوان متحد ہو کر اپنے ملک کے لیے کام کرنے نکلیں گے۔‘‘
گو کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک سے پر سال بڑی تعداد میں نوجوان بیرون ملک جانے کی کوششوں میں مصرف ہیں اور اس کے پیچھے معاشی بہتری کی امید سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہش کار فرما ہے تاہم ملک میں تارکین وطن کی بھیجی ہوئی رقوم اور وطن واپسی کے بعد بیرون ملک سے حاصل ہونے والا تجربہ ان کے خاندان کے ساتھ ملک کے لیے بھی سود مند ثابت ہوتا ہے۔