نونومبر 1989، یورپی تاریخ کا سنگ میل
8 ستمبر 2010انہوں نے اُس دور کے سوویت وزیر خارجہ ایڈورڈ شیورناتزے کو فون کرنے کی بار بار کوشش کی، لیکن اُن کی ماسکو میں کسی سے بات نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چند روز پہلے ہی سوویت یونین میں اکتوبر کے سرخ انقلاب کی بہترویں سالگرہ منائی گئی تھی، اور ریاستی قیادت نے اپنے معمول کے فرائض کی انجام دہی ابھی دوبارہ شروع نہیں کی تھی۔
مشرقی برلن میں سوویت سفیر یہ جاننا چاہتے تھے کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، اور اگر دونوں جرمن ریاستوں کی داخلی سرحد کھول دی گئی تو اُن سوویت فوجی دستوں کا ردعمل کیا ہونا چاہئے جو GDR میں ہزاروں کی تعداد میں متعین تھے۔ سوویت سفیر کی سوچ یہ تھی کہ شاید مشرقی جرمنی میں ماسکو کے مسلح دستوں کو بھی فوجی طاقت کے استعمال کا وہی طریقہ اپنانا چاہئے جو اُسی سال موسم گرما میں چینی حکومت نے، بیجنگ میں ابدی امن کے چوک میں جمہوریت کے حق میں مظاہرے کرنے والے ہزار ہا چینی مظاہرین کو کچلنے کے لئے استعمال کیا تھا۔
پھر رات گئے تک ماسکو میں اعلیٰ حکومتی قیادت سے کوئی ٹیلی فون رابطہ نہ ہونے پر مشرقی برلن میں سوویت سفیر نے دیوار کی طرف بڑھنے والے جرمن باشندوں کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کے برعکس فیصلہ کیا، اور یوں تیر کمان سے نکل گیا۔
GDR میں نظر آنے والی اِن عوامی انقلابی تبدیلیوں پر سوویت قیادت کے ساتھ ساتھ ملکی خفیہ ادارے KGB کے اعلیٰ اہلکار بھی بڑے حیران تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کمیونسٹ جرمنی میں ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ تب شاید سوویت سیاستدان اور KGB کے اعلیٰ اہلکار یہ بھول گئے تھے کہ مشرقی جرمنی میں بھی انسان ہی بستے تھے، جو اپنے لئے بنیادی شہری آزادیوں کے خواہش مند تھے۔
سابقہ مشرقی جرمنی میں متعین سوویت خفیہ ادارے KGB کے شعبہ اطلاعات کے سربراہ نے بعد ازاں اس بارے میں کہا تھا: ’’سوویت یونین کی قیادت کو کمیونسٹ جرمنی میں ریاستی نظم و ضبط کا اندھا اعتماد تھا۔ اس کی وجہ وہ نظریاتی تربیتی مراحل تھے جن میں سے ہر شہری کو گزرنا پڑتا تھا۔ اس لئے ماسکو میں سوویت رہنماؤں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا، اور نہ کسی کو یہ اندازہ تھا کہ GDR میں حالات ایسی بحرانی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔‘‘
اسےانسانوں کے ساتھ تاریخ کا انصاف کہا جائے یا سوویت سیاسی نظام کی اندرونی ناکامی کہ دیوار برلن کے گرائے جانے کا اُس دور کے سوویت رہنما میخائیل گورباچوف کو اگلے روز یعنی دس نومبر کو علم ہو سکا تھا۔
رپورٹ : مقبول ملک
ادارت : عاطف بلوچ