وزیرستان سے اغوا ہونے والے برطانوی صحافی کی رہائی
9 ستمبر 2010اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن کے ترجمان جارج شیرف کا کہنا ہے، ’ہم تصدیق کرتے ہیں کہ قریشی کو رہا کر دیا گیا ہے اور ہماری ٹیم انہیں درکار معاونت فراہم کر رہی ہے۔‘ تاہم برطانوی ہائی کمیشن نے اس پیش رفت کے حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
اسد قریشی ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کرنل امام اور پاکستان کے ایک سابق جاسوس خالد خواجہ کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ تاہم خالد خواجہ کو بعد ازاں قتل کر دیا گیا تھا۔ کرنل امام کے بارے میں ابھی تک کسی طرح کی معلومات دستیاب نہیں۔
قریشی پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ دستاویزی فلموں کے پروڈیوسر ہیں اور گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں ہی مقیم تھے۔ وہ سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے لئے بھی کام کرتے رہے ہیں۔
بعدازاں انہوں نے دستاویزی فلمیں بنانا شروع کر دی تھیں۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کے موضوع پر ایسی ہی ایک فلم بناتے ہوئے اغوا کر لئے گئے تھے۔
اس حوالے سے قبل ازیں غیر معروف سمجھے جانے والے ایک انتہاپسند گروپ ’ایشیئن ٹائیگرز‘ نے اسد قریشی، کرنل امام اور خالد خواجہ کو اغوا کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس گروپ نے ہی خالد خواجہ کی وہ ویڈیو بھی جاری کی تھی، جس کے بعد ان کی لاش ملی تھی۔
اغوا کاروں کی طرف سے ایک ای میل پیغام موصول ہونے کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ بتایا گیا کہ انہوں نے اس پیغام میں خالد خواجہ کی رہائی کے لئے حکومت کو پیش کی گئی شرائط تسلیم نہ کئے جانے پر انہیں قتل کیا تھا۔
خالد خواجہ آئی ایس آئی کے ایک سابق ایجنٹ تھے۔ ان کا نام دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے بھی جوڑا جاتا رہا۔ سکیورٹی حکام کے مطابق ان کی لاش رواں برس اپریل میں اس تحریر کے ساتھ ملی کہ انہیں امریکہ کے لئے جاسوسی کرنے پر قتل کیا گیا۔
امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو القاعدہ کا عالمی ہیڈکوارٹر کہتے ہوئے انہیں خطرناک ترین خطہ قرار دیتا ہے۔ اس علاقے میں کسی صحافی کے قتل کی اب تک کی آخری خبر 2007ء میں ملی تھی۔ اس وقت ایک رپورٹر حیات اللہ خان کی لاش میر علی کے علاقے سے ملی تھی۔ حیات اللہ نے دراصل القاعدہ کے مبینہ کمانڈر ابو حمزہ کی موت کی خبر دی تھی۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: مقبول ملک