وسطی پاکستان میں احمدی شہری کا قتل
20 اگست 2015پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق مقتول کی عمر 37 برس تھی اور اسے اس حملے کے دوران پانچ گولیاں لگی تھیں، جن میں سے ایک اس کے سر میں پھنس کر رہ گئی تھی۔
ڈی پی اے نے جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں اس احمدی شہری پر ایک موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے جائے واردات پر پہنچ کر اچانک فائرنگ شروع کر دی تھی۔
ڈی پی اے کے مطابق احمدیہ عقیدے کے پیروکار پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کو تسلیم نہیں کرتے۔ دنیا کے دیگر معاشروں کے مسلمانوں کی طرح پاکستان میں بھی مسلم اکثریتی آبادی کے لیے پیغمبر اسلام کے ساتھ ہی ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔
اسی تناظر میں 1974ء میں اس دور کی پاکستانی حکومت نے احمدیوں کو، جنہیں عرف عام میں قادیانی بھی کہا جاتا ہے، ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان میں وقفے وقفے سے شدت پسند مسلمانوں کی طرف سے احمدی مذہبی اقلیت کے ارکان پر حملوں کے واقعات بھی دیکھنے آتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں احمدی مذہبی اقلیت کے ارکان پر اکثر فرقہ پرست مسلم تنظیموں کی طرف سے توہین مذہب کے الزام بھی لگائے جاتے ہیں، کیونکہ قانوناﹰ احمدی باشندے پاکستان میں نہ تو خود کو مسلم اور نہ ہی اپنی عبادت گاہوں کو مسجدیں کہلوا سکتے ہیں۔