ویانا مذاکرات کے نتائج کا انحصار مغرب کے فیصلوں پر، ایران
15 فروری 2022ایران نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ویانا میں جاری مذاکرات میں کوئی بھی ممکنہ پیش رفت اب اس بات پر منحصر ہے کہ مغربی ممالک اس حوالے سے کیا سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں اس نے اپنی حتمی تجاویز ان کے حوالے کر دی ہیں۔
پیر کے روز تہران میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ایران کے وزیر خارجہ نے کہا 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی اب تقریباً ہاتھ میں ہے۔ تاہم ایران کا اب بھی اس بات پر اصرار ہے کہ ویانا میں جاری مذاکرات کے دوران ہی مغربی ممالک کو تہران پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔
ایران کا پابندیاں ہٹانے پر اصرار
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے پیر کے روز تہران میں اپنے آئرش ہم منصب سائمن کووینی کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس میں کہا، ''ایران کے لیے یہی بہتر ہے کہ ویانا میں کوئی معاہدہ طے پا جائے اور پابندیاں کل کے بجائے آج ہی ہٹا دی جائیں۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''تو ہم جلدی سے ایک اچھا معاہدہ چاہتے ہیں، لیکن یہ منطقی بات چیت کے دائرے میں ہو اور ایرانی قوم کے حقوق کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔'' ایرانی وزیر خارجہ نے امریکا اور جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے یورپی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ معاہدے کے متن اور وقت کے ساتھ کھیلنے کے بجائے''، اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں۔''
اس سے قبل پیر کو ہی ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ آسٹریا کے دارالحکومت میں ہونے والے مذاکرات، ''ایک ایسے مرحلے پر پہنچ گئے ہیں کہ جہاں اس کے نتائج کا اعلان کیا جا سکتا ہے، تاہم اب یہ امریکی موقف پر منحصر ہے۔''
شمخانی نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اتوار کے روز ایران کے چیف مذاکرات کار علی باقری کنی کے ساتھ فون پر بات کی تھی جس سے ان کے اس خیال کو تقویت ملی کہ ایرانی ٹیم کو اپنے ایجنڈے پر قائم رہنے میں ایک سخت چیلنج کا بھی سامنا ہے، جبکہ مغربی ممالک اپنے وعدوں سے بچنے کے لیے سیاسی ''شو'' جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مغربی ممالک کا موقف
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ اسے اب اس بات کا پختہ یقین ہے کہ جوہری معاہدے کی بحالی بہت قریب ہے۔ یورپی یونین میں خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل نے ایرانی وزیر خارجہ سے بات چیت کے بعد یہ بات کہی۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''مجھے پختہ یقین ہے کہ ایک معاہدہ نظر میں ہے۔ اب اس بارے میں حتمی کوششیں کرنے اور سمجھوتہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔''
تاہم امریکا نے اب بھی اس معاہدے کی بحالی کے حوالے سے محتاط رویہ اپنانے کی بات کہی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا، ''جو کچھ بھی ہم ویانا میں حقیقی طور پر دیکھ رہے ہیں، ہم پیش رفت کے حوالے سے کچھ زیادہ احتیاط برتنے والے ہیں۔ وقت تو تقریبا ختم ہی ہو چکا ہے۔''
اس سے قبل ان مذاکرات میں شامل چینی مندوب نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ ایران نے جوہری معاہدے کے حوالے سے اپنی حتمی تجاویز مندوبین کے حوالے کر دی ہیں اور اب اس پر مغربی ممالک کو فیصلہ کرنا ہے۔
سن 2015ء کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہ معاہدہ جوائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) یا مشترکہ جامع منصوبہ عمل کے نام سے معروف ہے۔
اس معاہدے کی رو سے ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں تہران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں یکطرفہ طور اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
ویانا میں بات چیت کے کئی ادوار کے بعد رواں ماہ کے اوائل میں امریکا نے ایران کے سول نیوکلیئر پروگرام پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ص ز/ ج (اے ایف پی، روئٹرز)