ٹرمپ کی پالیسی، جنوبی ایشیا مزید غیر مستحکم ہو جائے گا؟
29 اگست 2017یہ امر اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے قبل باراک اوباما اور جارج ڈبلیو بُش بھی پاکستان کی طالبان کے لیے ’اسلامی حمایت‘ کے تناظر میں پیدا دہرے کردار پر شاکی تھے۔ اس کے باوجود ان صدور نے اپنی پالیسیوں میں اسے مرکزی حیثیت نہیں دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی میں پاکستان کے اس کردار کو مرکزیت فراہم کر کے غیر معمولی اہمیت دی ہے۔
نئی امریکی پالیسی کے تحت ٹرمپ پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے کے علاوہ پاکستانی علاقوں پر یک طرفہ فضائی حملوں کا حکم دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی حکومت اور فوج کے اہلکاروں کو امریکی پابندیوں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستانی قربانیوں کا احترام کیا جائے، چین
ٹرمپ کے بیان نے پاکستانیوں کو تکلیف پہنچائی، عمران خان
پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی کے مصنف حسین حقانی ؟
ٹرمپ کی افغان پالیسی پاکستان میں زیرِ بحث
ٹرمپ کی اس پالیسی پر پاکستانی حکومت اور حزب اختلاف نے کھلے انداز میں برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس پالیسی کے تناظر میں پاکستانی وزیر خارجہ چین، روس اور ترکی کے دورے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
افغانستان: مرکزی کردار
امریکی صدر کی پالیسی پر افغانستان میں قائم اشرف غنی کی حکومت نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ کابل حکومت کا کہنا ہے کہ انجام کار امریکا نے بھی اس مسئلے میں پاکستانی کردار کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اس حوالے سے افغان اہلکار پہلے بھی ایسے ہی موقف بیان کرتے رہے ہیں۔
غنی حکومت نے یقین ظاہر کیا ہے کہ اس پالیسی سے نئے راستے کھلیں گے اور مسلح تنازعے کا حل ممکن ہے۔ افغان صدر کے ترجمان نے کہا کہ نئی پالیسی میں تنازعے کے خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی سے امریکا اور افغانستان کو فائدہ پہنچے گا۔ ڈی ڈبلیو کی پشتو سروس کو کابل یونیورسٹی سے منسلک وادر صافی نے بتایا کہ اگر پاکستان افغان تنازعے کے خاتمے کے لیے مثبت کردار ادا نہیں کرے گا تو اُسے سخت نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے۔
پاکستانی امداد کی ضرورت
پاکستانی حکومتی حلقے کا خیال ہے کہ مستقبل میں بھی افغان جنگ میں معاونت اور تنازعے کے حل کے لیے امریکا کو اسلام آباد پر انحصار کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں پاکستانی قبائلی علاقوں پر ڈرونز حملوں میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
یہ بھی اہم ہے کہ اسلام آباد کی یہ بھی کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو محدود کرے اور امریکی فوج کے مکمل انخلا کا منتظر رہے۔ پاکستانی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر خوش ہونے کی ضروت نہیں کیونکہ امریکا کو اپنے مزید فوجیوں کی تعیناتی میں پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی جانب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد پاکستان امریکا پر انحصار کم کرنے کی جراٴت کر سکتا ہے۔
افغانستان اور چین
چین کی اکیڈیمی برائے سوشل سائنسز کے ایک محقق یی ہیلین کا کہنا ہے کہ علاقائی قوتوں کی اندرونی کشمکش دہشت گردوں کو شکست دینے میں منفی اثرات کی حامل ہو سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان چین نے مصالحتی کردار اپناتے ہوئے اپنے اسٹریٹیجیک مفاد کے تناظر میں دہشت گردی کو شکست دینے کو خاص اہمیت دے رکھی ہے۔
چینی ریسرچر کے بقول پاکستان کا انسداد دہشت گردی کی بین الاقوامی کوششوں میں کردار واضح ہے اور امریکی الزام تراشی نامناسب ہے۔ یی ہیلین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد کوئی خیرات نہیں بلکہ افغانستان میں نیٹو کی سپلائی کے عمل اور ایندھن کی فراہمی میں پاکستان کی معاونت موجود رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کو محفوظ کرنے کے لیے بھی افغانستان میں امن کا قیام اہم ہے۔
غیر جانبداری کا آپشن
ڈی ڈبلیو کی ہندی سروس کے ساتھ بھارتی دارالحکومت میں مقیم افغان امور کے ماہر قمر آغا کا خیال ہے کہ پاکستان بھارت کو اپنا مرکزی دشمن تصور کرتا ہے اور اب جب کہ امریکا افغانستان میں ایک بڑے کردار کا متمنی ہے تو ایسے میں اسلام آباد بیجنگ حکومت کے مزید قریب ہونے کی کوشش کرے گا۔ آغا کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی پالیسی میں یہ واضح نہیں کہ آیا امریکی صدر بھارت کا تعاون بھی چاہتے ہیں۔
دوسری جانب بھارت اور پاکستان میں سرگرم حلقوں کا خیال ہے کہ ان دونوں ملکوں کو امریکا و چین کی بین الاقوامی مسابقتی عمل کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ان بڑی طاقتوں کے افغانستان کے علاوہ وسطی ایشیا میں اپنے اپنے مفادات ہیں۔