ٹرمپ کی اُن سے تاریخی ملاقات، ایجنڈے میں کیا کچھ ہو گا؟
11 جون 2018سنگاپور سے پیر گیارہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جزیرہ نما کوریا پر پائی جانے والی نصف صدی سے زائد کی شدید کشیدگی کے تناظر میں کسی امریکی صدر کی کمیونسٹ کوریا کے کسی رہنما کے ساتھ اپنی نوعیت کی یہ پہلی اور انتہائی تاریخی ملاقات اس لیے بہت اہم ہے کہ اس کے نتیجے میں جزیرہ نما کوریا پر قیام امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اس سمٹ میں شمالی کوریا کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کے علاوہ اس بارے میں بھی بات چیت کی جائے گی کہ شمالی اور جنوبی کوریا کی تکنیکی طور پر ابھی تک جنگ کی حالت میں موجود دونوں حریف ہمسایہ ریاستوں کے مابین دیرپا قیام امن کس طرح ممکن ہو سکتا ہے اور کس طرح کوریائی جنگ کے باقاعدہ خاتمے کے لیے ایک حتمی امن معاہدے کو یقنی بنایا جا سکتا ہے۔
اس سمٹ سے ایک روز پہلے آج پیر کے دن بھی سنگاپور میں امریکا اور شمالی کوریا کے سفارت کار ان معاملات کو حل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، جو ابھی تک متنازعہ ہیں۔ امریکا اس ملاقات کے نتیجے میں مستقبل قریب میں جو منزل حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے امریکی مذاکرات کار سی وی آئی ڈی (CVID) کا نام دے رہے ہیں۔
اس سے مراد شمالی کوریا کا خود کو مکمل، قابل تصدیق اور ناقابل تنسیخ انداز میں غیر جوہری بنانا یا ’ڈی نیوکلیئرائز‘ کرنا ہے۔ اس بارے میں امریکی حکام کی طرف سے صدر ٹرمپ کے اس واضح موقف کا حوالہ دیا جاتا ہے، ’’انہیں (شمالی کوریا کو) خود کو غیر جوہری بنانا ہی ہو گا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے، تو یہ بات ناقابل قبول ہو گی۔‘‘
دوسری طرف کمیونسٹ کوریا ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکا ہے کہ وہ اپنے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کو ختم کرتے ہوئے خود کو غیر جوہری بنانے پر تیار ہے تاہم اس کے لیے شرائط اور تفصیلات طے کی جانا ابھی باقی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق یہ امر تاحال غیر واضح ہے کہ اطراف کے مابین ایسا کوئی اتفاق رائے اگر ہوا، تو اس کی شرائط کیا ہوں گی؟ اس لیے کہ کم جونگ اُن اور ڈونلڈ ٹرمپ اگر کسی تصفیے پر آمادہ ہو گئے، تو ایسا ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول کے تحت ہی کیا جا سکے گا۔
دوسری طرف جنوبی کوریا کا اندازہ ہے کہ شمالی کوریا کے پاس قریب 50 کلوگرام پلوٹونیم موجود ہے، جو قریب 10 ایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہو گا اور اس کے علاوہ پیونگ یانگ کے پاس یہ صلاحیت بھی ابھی تک موجود ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہو سکنے والا مزید یورینیم بھی تیار کر سکتا ہے۔
سنگاپور سمٹ کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس بارے میں جوہری ہتھیاروں سے متعلقہ امور کے ایک معروف امریکی ماہر زیگفریڈ ہیکر کا کہنا ہے، ’’شمالی کوریا فوری طور پر تو CVID پر تیار نہیں ہو گا کیونکہ یہ بات پیونگ یانگ کے لیے ناقابل تصور ہو گی۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ شمالی کوریا مکمل طور پر جھک گیا ہے، اور ایسا تو پیونگ یانگ بالکل نہیں کرنا چاہے گا۔‘‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ملاقات کے لیے کل اتوار دس جون کو ہی سنگاپور پہنچ گئے تھے۔ آج پیر کے روز صدر ٹرمپ نے سنگاپور کے وزیر اعظم سے ایک ظہرانے پر ملاقات بھی کی۔
م م / ا ب ا (اے ایف پی)