ٹویٹر بھارت میں خصوصی قانونی تحفظ سے محروم ہو گیا
16 جون 2021بھارت کے نئے آئی ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی) ضابطوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہنے پر ٹویٹر کی 'انٹرمیڈیری حیثیت‘ چھین لی گئی۔ اس کے ساتھ اب ایک پبلیشر کے طور پر سلوک کیا جائے گا اور اگر کسی مبینہ غیر قانونی مواد کے سلسلے میں اس کے خلاف کیس دائر کیا جاتا ہے تو اسے بھارتی قوانین کے تحت سزا ہو سکتی ہے۔ ٹویٹر انتظامیہ نے آج ایک بیان جاری کر کے کہا کہ وہ نئے آئی ٹی ضابطوں پر عمل درآمد کے لیے تیزی سے اقدامات کر رہی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق بھارتی آئی ٹی ایکٹ کے تحت ٹویٹر واحد امریکی پلیٹ فارم ہے، جس سے'حفاظتی ڈھال‘ چھین لی گئی۔ فیس بک، یو ٹیوب اور واٹس ایپ جیسے دیگر پلیٹ فارمز کو ابھی تک یہ خصوصی تحفظ حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹویٹر سے 'حفاظتی ڈھال‘ چھن جانے کے بعد اب بھارت میں کسی صارف کے ذریعے اس کے پلیٹ فارم پر 'غیر قانونی‘ یا 'اشتعال انگیز‘ مواد پوسٹ کرنے پر کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر سمیت اس کے اعلی افسران کے خلاف مجرمانہ مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے اور انہیں پولیس کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حکومتی اقدام کا دفاع
بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے ٹویٹر کو حاصل قانونی تحفظ ختم کر دیے جانے کو درست قرار دیا اور کہا کہ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے بھارتی ضابطو ں پر عمداً عمل نہیں کیا، حالانکہ اسے کئی مواقع دیے گئے۔
روی شنکر پرساد نے بھارتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم KOO (جسے بھارت ٹویٹر کا متبادل قرار دے رہا ہے) پر اپنے ایک سے زائد پیغامات میں ٹویٹر پر نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا، ”یہ حیران کن ہے کہ خود کو اظہار رائے کی آزادی کا علمبردار قرار دینے والے ٹویٹر سے، جب انٹرمیڈیری گائیڈ لائنس پر عمل کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے جان بوجھ کر سرکشی کا رویہ اپنایا۔"
روی شنکر پرساد کا کہنا تھا، ”قانون کی حکمرانی بھارتی سماج کا بنیادی پتھر ہے۔ بھارت نے ابھی حال ہی میں جی سیون سربراہی کانفرنس میں ایک بار پھر اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت کے تئیں اپنے وعدے کا اعادہ کیا ہے۔ لیکن اگر کوئی غیر ملکی کمپنی اظہار رائے کی آزادی کا علمبردار کے طور پر پیش کر کے خود کو ملکی قانون سے بالاتر سمجھتی ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔" انہوں نے مزید کہا، ”امریکا یا کسی بھی دوسر ے ملک میں بزنس کرنے والی بھارتی کمپنیاں مقامی قوانین پر مکمل عمل درآمد کرتی ہیں لیکن بھارت میں ٹویٹر کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔"
بھارتی وزیر نے سوال کیا، ”ٹویٹر جیسے پلیٹ فارم آخر استحصال اور مصیبت کے شکار افراد کی آواز سننے کے لیے بھارتی قوانین پر عمل کرنے میں جھجھک کیوں محسوس کرتے ہیں۔"
ٹویٹر کے خلاف کارروائی کی وجہ؟
امریکی کمپنی ٹویٹر اور بھارت سرکار کے درمیان ایک عرصے سے رسہ کشی جاری ہے۔ حکومت نے تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کو نئے آئی ٹی ضابطوں پر عمل درآمد کرنے اور اس کے بارے میں متعلقہ عہدیدار کو آگاہ کرنے کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا تھا۔ متعدد کمپنیوں نے لاک ڈاون اور دیگر تکنیکی مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے ان ضابطوں پر عمل کرنے میں تاخیر کے لیے معذرت کی تھی۔ البتہ ٹوئٹر نے آخری تاریخ 25 مئی تک حکومت کو کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں ٹویٹر نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان اور پارٹی کے ایک نائب صدر کی طرف سے اپوزیشن کانگریس کے مبینہ ٹول کٹ کے سلسلے میں کیے گئے ٹویٹ پر manipulated media کا ٹیگ لگا دیا تھا جبکہ اس ماہ کے اوائل میں بھارت کے نائب صدر وینکیانائیڈو اور بی جے پی کی مربی تنظیم ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے سربراہ کا بلیو ٹک ختم کر دیا تھا۔
پولیس نے ٹول کٹ معاملے میں ٹویٹر کے دفتر پر چھاپے مارے تھے حالانکہ بعد میں دہلی پولیس نے وضاحت کی کہ وہ امریکی کمپنی کو ایک نوٹس دینے گئی تھی۔ لیکن پولیس اس سوال کا جواب نہیں دے سکی کہ نوٹس دینے کے لیے بیس افراد کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟
ٹویٹر کے خلاف مقدمہ
ٹویٹر اور حکومت کے درمیان نیا تنازعہ اترپردیش میں ایک عمر رسیدہ مسلمان کے ساتھ زیادتی کا واقعہ بنا ہے۔ بھارتی وزیر روی شنکر پرساد نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا،”اترپردیش میں جو ہوا وہ فیک نیوز کے خلاف جنگ میں ٹویٹر کی دھاندلی کا واضح نمونہ ہے۔ ٹویٹر حالانکہ فیکٹ چیکنگ میکانزم کی بات کرتا ہے لیکن اترپردیش میں حال ہی میں ہوئے واقعات جیسے متعدد کیسز میں ایسا کرنے میں ناکام رہا ہے، جس سے گمراہ کن اطلاعات کے خلاف جنگ میں اس کی کمزوری کا پتا چلتا ہے۔"
دراصل گزشتہ دنوں ایک ویڈیو وائرل ہو گئی تھی، جس میں اترپردیش کے غازی آباد ضلع میں مبینہ طورپر بعض شرپسندوں نے ایک عمر رسیدہ مسلم شخص کو بری طرح پیٹتے ہوئے ان سے 'جے شری رام‘ اور 'وندے ماترم‘ کے نعرے لگوائے تھے۔ بعد میں ان بزرگ کی داڑھی کاٹ دی گئی۔ اس واقعے کو فرقہ وارانہ حملہ اور مسلمانوں کے خلاف شدت پسند ہندووں کی بڑھتی ہوئی زیادتی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ تاہم پولیس اسے 'فرقہ وارانہ‘ قرار دینے سے انکار کرتی ہے۔
پولیس کا دعوی ہے کہ صوفی عبدالصمد نامی بزرگ پر چھ لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ ان میں ہندو اور مسلمان دونوں تھے۔ صوفی صاحب نے ان لوگوں کو تعویذ فروخت کیے تھے لیکن ان کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کے سبب یہ لوگ ان سے ناراض تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس وضاحت کے ساتھ اس نے ٹویٹر سے ویڈیو ہٹانے کے لیے کہا تھا لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے ایسا نہیں کیا، جس کے بعد اس کے خلاف کیس درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے اس کیس میں کئی صحافیوں کو بھی نامزد کیا ہے۔
ٹویٹر نے ان دونوں معاملات پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
حکومت کے اعداود شمار کے مطابق مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹویٹر کے بھارت میں صارفین کی تعداد ایک کروڑ پچھہتر لاکھ سے زائد ہے۔