پانی کی قلت، ایرانی عوام احتجاج کے لیے سڑکوں پر
1 جولائی 2018ایران کے جنوب مغربی علاقے میں واقع خرم شہر، آبادان اور دوسرے علاقوں میں مظاہروں کا سلسلہ جمعے کی شام سے شروع ہے۔ ابتدا میں پرامن رہنے والے مظاہرے اتوار کی صبح شدت اختیار کر گئے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر شدید پتھراؤ بھی کیا۔
خاص طور پر خرم شہر میں سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان اتوار کی صبح اس وقت جھڑپیں شدت اختیار کر گئیں، جب انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی گئی۔ مظاہرین نے بازاروں میں کئی دوکانوں کے شیشے توڑنے کے ساتھ ساتھ کیش کی خودکار مشینوں کو بھی تہس نہس کر دیا۔ اس موقع پر مظاہرین نے کچرہ دانوں کو بھی آگ لگائی اور متعدد عمارتوں کو نقصان پہچانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
خرم شہر میں مظاہروں میں شریک خواتین اور بچے بھی شریک تھے لیکن وہ اُس وقت علیحدگی اختیار کر گئے جب سکیورٹی فورسز نے اپنی کارروائی شروع کی۔ بعض عرب میڈیا کے مطابق مظاہرین پر گولیاں بھی برسائی گئیں۔
عرب میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق خرم شہر میں بھاری مشین گنوں کی آوازیں دیر تک سنائی دیتی رہیں۔ مقام انتظامیہ کے مطابق سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں گیارہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا فضلی کا کہنا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ مظاہرے پھوٹنے کے محرکات کیا ہیں۔ فضلی کے نائب نے رپورٹرز کو بتایا کہ خرم شہر میں کم از کم دس پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق خرم شہر میں پانی کی کمیابی کے ساتھ ساتھ گدلے پانی کی فراہمی کے خلاف عام لوگوں نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان مظاہروں میں مظاہرین عربی اور فارسی کے بینر اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ اہم ہے کہ خرم شہر کی اکثریت عربی زبان بولنے والے ایرانی شہریوں پر مشتمل ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق ان جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مقامی گورنر نے سعودی میڈیا پر سامنے آنے والی ان رپورٹوں کو رد کیا ہے، جن میں کہا جا رہا تھا کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ بھی کی گئی۔
ایران کو شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اور مسلسل بڑھتی مہنگائی اور کرنسی کی قدر کم ہونے پر عوامی بے چینی بھی نمایاں ہے۔ حکومتی خزانے کو افراطِ زر کے گہرے بوجھ کا سامنا ہے۔ مبصرین کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی دوبارہ سے نافذ ہونے والے معاشی پابندیوں کے مکمل نفاذ کے بعد یہ صورت حال انتہائی گھمبیر ہو سکتی ہے۔