پاپائے روم کا نازی دور کے سابق اذیتی کیمپ آؤشوٹس کا دورہ
29 جولائی 2016پوپ خود پیدل چل کر آؤشوٹس کے اس بدنام زمانہ کیمپ میں داخل ہوئے جس کے دروازے پر طنز کے طور پر یہ الفاظ درج ہیں،’’کام آزاد کر دیتا ہے‘‘۔
جرمن نازی دور میں آمر حکمران آڈولف ہٹلر کی فورسز نے آؤشوٹس کے اس بدنام زمانہ کیمپ میں ایک ملین سے زیادہ انسانوں کو، جن میں اکثریت یہودیوں کی تھی خوفناک طریقے کی اذیت رسانی کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ پوپ فرانسس اس اذیتی کیمپ کا دورہ کرنے والے تیسرے مسلسل روم کے اسقُف ہیں۔
پوپ فرانسس نے آؤشوٹس کے اذیت رسانی کیمپ پہنچ کر 15 منٹ تک خاموشی سے نازی دور کی اُن بہیمانہ زیادیتوں کا شکار بننے والوں کے لیے دُعا کی اور اُنہیں نظرانہ عقیدت پیش کیا اور بعد ازاں اس کیمپ میں بچ جانے والے قیدیوں میں سے چند ایک کے ساتھ اپنے خلوص و محبت کا اظہار کرتے ہوئے اُن سے ہاتھ ملایا اور اُن کے گالوں کو بوسہ دیا۔
پوپ نے ایک بڑی سفید موم بتی روشن کر کے اُسے ’ اُس موت کی دیوار‘ پر نصب کیا جس پر ہزاروں لاکھوں افراد کو پھانسی دی جاتی تھی۔
اس مقام پر ایک تاریک زیر زمین جیل سیل واقع ہے جہاں کبھی معروف پولستانی کیتھولک راہب ماکسی میلین کولبے نے ایک اور شخص کی جان بچانے کے لیے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ پوپ فرانسس نے اس سیل میں جا کر بھی دُعا کی۔
اس پولستانی پادری نے ایک خاندان کے سربراہ کو بچانے کے لیے اُس کی جگہ موت کی سزا کے لیے رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کر دیا تھا۔ برکیناؤ کے اس سابقہ اذیتی کیمپ میں پوپ اُن لوگوں سے بھی ملیں گے، جنہوں نے نازی دورِ حکومت میں یہودیوں کو قتل ہونے سے بچایا تھا۔
ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے پوپ فرانسس آؤشوٹس کے سابقہ کیمپ کا دورہ کرنے والے ویٹیکن کے وہ پہلے اسقُف ہیں، جنہوں نے بذات خود یورپ کی سر زمین پر دوسری عالمی جنگ کے مظالم نہیں سہے ہیں۔
کل جمعرات کو رومن کیتھولک کلیسا کے سربراہ نے پولینڈ کے شہر کراکوف میں ورلڈ یُوتھ کانگریس کے لیے دنیا بھر سے گئے ہوئے اندازاً چھ لاکھ نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے سوال کیا تھا، ’’کیا تم لوگوں میں اتنی طاقت ہے کہ تم اُن لوگوں کا مقابلہ کرو، جو نہیں چاہتے کہ یہ دنیا بدلے؟‘‘
پولینڈ میں اپنے خطاب ميں پوپ فرانسس نے مہاجرين کے ليے امداد بڑھانے اور فراخ دلی کے مظاہرہ کرنے پر بھی زور دیا تھا۔