پاکستانی بچوں میں آئرن کی بڑھتی ہوئی کمی اور حکومتی اقدامات
9 اپریل 2022چالیس سالہ صغریٰ بی بی کو اوستہ محمد کے واحد ہیلتھ کیئر سینٹر میں اپنی باری کا انتطار کرتے ہوئے دو گھنٹے ہونے والے تھے۔ کچھ عرصے قبل ان کی کم عمر بہو انیمیا کے باعث دوران زچگی انتقال کر گئی تھیں تب سے ننھے پوتے خیر محمد کی ذمہ داری ان پر ہے۔
اوستہ محمد ہیلتھ کیئر سینٹر کے ورکر ز نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے علاقے میں ہر پانچ میں سے دو بچے آئرن کی کمی کے باعث لاغر پن کا شکار ہیں، ''پیدائشی طور پر کم وزن بچوں کی اکثریت پیدائش کے بعد ایک ماہ کے اندر انتقال کر جاتی ہے اور اگر وہ کسی طرح بچ بھی جائیں تو ان کی جسمانی و دماغی نشونما صحت مند بچوں کی نسبت انتہائی سست ہوتی ہے، جو ان میں اعصابی معذوری کا سبب بھی بنتی ہے۔‘‘
خیر محمد کی 16 سالہ ماں زچگی کے دوران انیمیا کا شکار تھیں۔ یہ مرض خون میں سرخ ذرات کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جسم میں ہیموگلوبن کی مقدار بہت کم ہو جاتی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکر کی سر توڑ کوشش کے باوجود گھر والے خاتون کے مرض کی نوعیت سمجھنے سے قاصر رہے کہ حاملہ خاتون کو زیادہ مقدار میں آئرن کی ضرورت ہے۔
خیر محمد ماں کے دودھ سے بھی محروم رہا لہذا گیارہ ماہ کا ہونے کے باوجود بمشکل بیٹھنے کے قابل ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ بچہ کسی اعصابی معذوری کا شکار ہو جائے گا۔
پاکستان میں یہ صورتحال کس قدر کشیدہ ہے؟
پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹیٹک سوسائٹی کے ماہرین کے مطابق جسم میں آئرن اور دیگر مائیکرو نیوٹری اینٹس کی کمی کے باعث سندھ کے بیشتر دیہی علاقوں خصوصا خیر پور، نوشہرو فیروز، سکھر وغیرہ میں بچوں میں چھوٹے قد کا غیر معمولی رجحان دیکھنے میں آیا ہے، جو لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں زیادہ ہے۔
2019ء میں ہونے والے پاکستان قومی سلامتی نیوٹریشن سروے کے مطابق صوبائی سطح پر سب سے زیادہ لاغر بچے فاٹا میں ہیں، جن کا تناسب 48 فیصد ہے۔ اس کے بعد بلوچستان 46 فیصد، گلگت بلتستان 46 فیصد، سندھ 45 فیصد، خیبر پختونخواہ 40 فیصد اور پنجاب 36 فیصد پر ہیں۔
مجموعی طور پر پاکستان میں 50 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں جس میں آئرن کی کمی سر فہرست ہے۔ دیہی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری کے باعث والدین بچوں کو صحت مند خوراک دینے سے قاصر ہیں، جس میں تعلیم کی کمی کا بھی دخل ہے۔ زیادہ تر مائیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں، جنہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ کس عمر تک بچوں کو کون سی غذا دینا ضروری ہے۔
بڑھتی ہوئی آئرن ڈیفی شینسی کی وجوہات کیا ہیں؟
معروف محقق اور ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بچوں میں لاغر پن کا براہ راست تعلق ماں کی صحت سے ہے،''دوران حمل اگر ماں کے جسم میں آئرن کی کمی ہو تو بچہ نحیف و لاغر ہو گا اور ماں کے انیمیا کا شکار ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہوں گے۔‘‘
ڈاکٹر بھٹہ کے مطابق پاکستان میں آئرن ڈیفی شینسی سے ماؤں اور بچوں کی اموات کی شرح بڑھنے کا براہ راست تعلق غربت کے علاوہ قدامت پسندانہ سوچ سے بھی ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو صحت کی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں اور دوران ِ حمل گھر والے بھی ان کا مناسب خیال بھی نہیں رکھتے۔
ماں کے دودھ کا متبادل کیا ہے؟
لیڈی ڈاکٹر عائشہ خان کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پیدائش کے بعد 4 سے 6 ماہ تک ماں کا دودھ پینے سے بچے انیمیا سے بچے رہتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں ٹھوس غذا سے آئرن دیا جاتا ہے، جس میں مختلف سیریلز، گوشت یا پھل شامل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق اگر کسی وجہ سے ماں بچے کو اپنا دودھ نہیں پلا سکتی تو ایک سال تک آئرن ملا دودھ پلانا ضروری ہے، جو ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کیا گیا ہو۔آئرن والے دودھ کے جو فارمولے بازار میں دستیاب ہیں ان میں سے بیشتر میں اتنا آئرن نہیں ہوتا، جس سے بچوں کی صحیح نشونما ہو سکے۔
اس حوالے سے ڈوئچے ویلے نے پاکستان کے مختلف شہروں میں ماہر زچہ و بچہ سے رابطے کیے تو تقریبا تمام ڈاکٹرز کا موقف تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ بچے کے لیے ماں کا دودھ بہترین ہوتا ہے، جس کا کوئی متبادل نہیں۔ اپنے پاس زیر علاج خواتین کو وہ یہی تنبیہ کرتی ہیں کہ کم از کم چھ ماہ تک بچے کو اپنا دوھ پلائیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں بچوں کو ماں کو دودھ دینے کے رجحان میں تیزی سے کمی آرہی ہے، جو ان میں انیمیا کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اعداد وشمار کیا بتاتے ہیں؟
2019ء میں آغا خان یونیورسٹی کی زیر نگرانی ہونے والے قومی سلامتی نیوٹریشنل سروے کے مطابق پاکستان میں 48 فیصد مائیں پیدائش سے پانچ ماہ تک بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ جبکہ 15 فیصد شوہر یا خاندان کی جانب سے دباؤ پر، 17 فیصد جزوی اور 20 فیصد سرے سے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی ہیں۔
ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ کی سر کردگی میں ہونے والے اس سروے کے اعداد و شمار مزید بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں یہ رجحان سب سے کم ہے، جہاں 69 صرف فیصد مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ یقینا اس کا تعلق اس خطے میں بد امنی، سیاسی انتشار، غربت اور صحت کی ناکافی سہولیات سے ہے، جس کے باعث بچوں کو بکری، گائے یا بھینسوں کا دودھ دیا جاتا ہے۔
حکومتی اقدامات کیا ہیں؟
ڈاکٹر عائشہ خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بچوں میں آئرن کی کمی دور کرنے اور انہیں انیمیا سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک خاص سپلیمنٹ دیا جاتا ہے، جسے "فیرس سلفیٹ" کہتے ہیں۔ اسے اگر وٹامن سی کے ساتھ دیا جائے تو بچے اسے باآسانی ہضم کر لیتے ہیں،''حکومت نے حال ہی میں پولیو اور کورونا وائرس ویکسینیشن مہمات کے ساتھ بچوں کو وٹامن اے کی خوراک بھی دی ہے، جس سے خوراک میں مائیکرو نیوٹری اینٹس کی کمی سے پیدا ہونے والے امراض پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔‘‘
اس کے ساتھ ہی موجودہ حکومت نے حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں میں آئرن اور دیگر اہم مائیکرو نیوٹری اینٹس کی کمی پر قابو پانے کے لیے احساس نشونما پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت مستحق خواتین و بچوں کو 1500 سے 2000 روپے 4 ماہ کے وقفے کے بعد جاری کیے جاتے ہیں۔
بلوچستان میں حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں میں اموات کی شرح زیادہ ہونے کے باعث پہلے مرحلے میں قلات، ژوب سمیت چھ ڈسٹرکٹس میں امدادی سینٹرز قائم کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے احساس نشونما پروگرام کی رجسٹریشن اور رقم کا حصول بہت آسان ہو گیا ہے۔ یہ سینٹرز خواتین کو چھ ماہ سے پانچ سال کے بچوں کی خوراک کے اہم اجزاء جیسے گوشت، پھلیاں، دالیں اور زیادہ آئرن والی سبزیوں وغیرہ سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔