اقوام متحدہ میں شہباز شریف کی تقریر: کشمیر اور سیلاب موضوع
24 ستمبر 2022پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں مسئلہ کشمیر کے پر امن حل اور علاقائی استحکام کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر کے پہلے حصے میں ملک میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر کیا۔
جمعے کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے بعد پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’تیز رفتار اقتصادی ترقی کو یقینی بنائے اور لاکھوں لوگوں کو غربت اور بھوک سے باہر نکالے‘۔
تاہم شہباز شریف کے مطابق ایسا کرنے کے لیے پاکستان کو ایک ’مستحکم بیرونی ماحول‘ کی ضرورت ہے جس کا مطلب جنوبی ایشیا میں امن ہے۔ شہباز شریف کے مطابق علاقائی امن کا انحصار جموں و کشمیر کا دہائیوں سے جاری تنازعہ حل کرنے پر ہے۔
اس ضمن میں شہباز شریف کا مزید کہنا تھا، ’’اس دیرینہ تنازعہ کی بنیادی وجہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت سے انکار ہے۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر جبر اور مسلسل بربریت کا ذکر کیا۔
شہباز شریف نے بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے نوآبادیاتی عزائم کی تکمیل کے لیے کشمیر کی آبادی کو مسلم اکثریت کی بجائے ہندو اکثریت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے اسلاموفوبیا کو ’ایک عالمی رجحان‘ قرار دیا ، تاہم انہوں نے خاص طور پر بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت پر 'اسلاموفوبیا کے بدترین اظہار‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔
بھارت کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مسلمان اقلیت سے متعلق معاملات نظر انداز کرتی ہے اور بعض اوقات مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی اجازت دیتی ہے۔ مودی کی جماعت ان الزامات کی تردید کرتی ہے لیکن بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مسلمان شہریوں اور ان کے عقائد پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
شہباز شریف کی تقریر کے بعد دونوں جنوبی ایشیا ممالک نے جنرل اسمبلی میں رات گئے تک ’جواب دینے کے حق‘ کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے۔
ایک بھارتی سفارت کار نے شہباز شریف پر جوابی حملہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ اپنے ہی ملک میں غلط کاموں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بھارت کے خلاف ان اقدامات کا جواز پیش کرنا چاہتے ہیں جنہیں دنیا ناقابل قبول سمجھتی ہے۔
تقریر کے دوران شہباز شریف نے علاقائی عدم استحکام اور دہشت گردی کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کرتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک قرار دیا۔
عمران خان اور شہباز شریف کی تقریر میں فرق
شہباز شریف کی تقریر جنرل اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں ان کے پیش رو عمران خان کی کی گئی تقریر سے نمایاں طور پر مختلف تھی۔ تب عمران خان نے اپنی تقریر کا زیادہ تر حصہ امریکہ پر پاکستان کو ہدف بنانے کا الزام لگانے میں صرف کیا تھا۔ شہباز شریف نے تاہم اپنی تقریر میں ایک بار بھی امریکہ کا نام نہیں لیا۔
شہباز شریف نے تقریر میں مزید کہا، ’’پاکستان امن کا شراکت دار ہے، لیکن جناب صدر، امن کو صرف اسی صورت میں یقینی بنایا جا سکتا ہے جب دہائیوں سے مصائب کا شکار اور دہائیوں سے محکوم اقوام کو ان کے حقوق دیے جائیں اور ان کا احترام کیا جائے۔‘‘
شہباز شریف کی تقریر میں افغانستان کے بارے میں پاکستان کے گزشتہ موقف بھی کے حوالے سے فرق نمایاں تھا۔ عمران خان نے افغانستان میں طالبان کے تازہ اقتدار سے متعلق امید کا اظہار کیا تھا اور جنرل اسمبلی پر زور دیا تھا کہ وہ طالبان کی نئی حکومت کو الگ تھلگ نہ کریں۔ اس تقریر کے ایک سال بعد بھی اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک نے اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
شہباز شریف نے طالبان حکومت کا براہ راست ذکر کیے بغیر کہا، ’’پاکستان ایک ایسا افغانستان بھی دیکھنا چاہتا ہے جو اپنے اور دنیا کے ساتھ امن میں ہو اور جو صنف، نسل اور مذہب کی پرواہ کیے بغیر اپنے تمام شہریوں کا احترام کرے۔‘‘
’پاکستانی عوام عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں‘
شہباز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے گلوبل وارمنگ کی اس سے بڑی اور تباہ کن مثال کبھی نہیں دیکھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو پہلے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اب تاریخی سیلاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے حالاں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی زہریلی گیسوں کے اخراج کی زیادہ ذمہ داری دنیا کے دیگر ممالک پر عائد ہوتی ہے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔
شہباز شریف نے زور دیا کہ قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی برادری کو یکجا ہونا پڑے گا۔
مجموعی طور پر شہباز شریف کی تقریر میں عالمی بیانیے پر اثرورسوخ نہ رکھنے والے دیگر ممالک میں پائے جانے والے عمومی خوف کی بازگشت سنائی دی۔ انہوں نے کہا، ’’میری اصل تشویش اس چیلنج کے اگلے مرحلے کے بارے میں ہے، جب کیمرے چلے جائیں گے یا اس معزز اسمبلی کو چھوڑ دیں گے اور کہانی صرف یوکرین جیسے تنازعات پر منتقل ہو جائے گی۔‘‘ سیلاب متاثرین کی بحالی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اکیلے، بے یار و مددگار رہ جائیں گے؟‘‘
ش ح/ ع س (اے پی، روئٹرز)