پاکستان اور روس کی اولین مشترکہ فوجی مشقیں اسی سال
12 ستمبر 2016روسی دارالحکومت ماسکو میں تعینات پاکستانی سفیر نے پاکستان کے انگریزی روزنامہ ’ایکسپریس ٹریبیون‘ کو بتایا کہ یہ پہلا موقع ہو گا کہ دونوں ملکوں کے فوجی دستے ان مشترکہ مشقوں میں حصہ لیں گے، جنہیں ’دوستی دو ہزار سولہ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم اس پاکستانی سفارت کار نے ان مشقوں کی نوعیت اور وقت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ اخبار کے مطابق پاکستان روس سے جدید طیارے خریدنے پر بھی غور کر رہا ہے۔
یہ خبر ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب اسلام آباد کا قریبی اتحادی ملک چین بھی بحیرہ جنوبی چین میں روس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں میں مصروف ہے، جہاں چین کی خطے کے ممالک اور امریکا سے کشیدگی بھی چلی آ رہی ہے۔ روس اور پاکستان کی مشترکہ مشقوں کے حوالے سے اس خبر نے نہ صرف پاکستانی ذرائع ابلاغ میں جگہ پائی بلکہ اسے اس کی علاقائی اہمیت کے پیش نظر پاکستان کے حریف پڑ وسی ملک بھارت کے میڈیا نے بھی اپنے ہاں نمایاں جگہ دی۔
اس پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور پاکستانی خارجہ پالیسی پر قریب سے نظر رکھنے والے ڈاکٹر امان میمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایسا لگ رہا ہے کہ خطے میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ پاکستان اور چین ’سی پیک‘ پر کام کر رہے ہیں۔ ماضی میں روس کا اتحادی رہنے والا بھارت امریکا کی طرف جھک رہا ہے۔ امریکا نے ایران سے جوہری معاہدے پر بات چیت کر کے اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی ہے۔ روس ایک بار پھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ہر محاذ پر یہ دکھا رہا ہے کہ وہ بحیثیت عالمی طاقت ابھی منظر سے غائب نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت اور امریکا دوسرے ممالک کے ساتھ ملک کر چین کا محاصرہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بیجنگ کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی تگ و دو میں ہیں جبکہ دوسری طرف روس، چین، پاکستان ،ایران اور وسطی ایشیائی ممالک ایک نیا بلاک بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں، جس کا خاکہ ابھی دھندلا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر امان میمن نے کہا، ’’بھارت بحر ہند کو اپنے حلقہ اثر میں رکھنا چاہتا ہے جب کہ چین تیل اور دوسری اشیاء کی تجارت کے لیے متبادل راستوں کی تلا ش میں ہے۔ پہلے اُس نے بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ تعاون کرنا چاہا لیکن بھارتی دباؤ کی وجہ سے ان ملکوں نے انکار کر دیا۔ اب وہ پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ اب چین کے پاکستان میں مفادات اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔ میرے خیال میں چین بھی اس بات کا حامی ہے کہ پاکستان کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوں۔‘‘
کئی سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی اکثر یک رخی رہی ہے اور ماضی میں اسلام آباد صرف مغرب پر انحصار کرتا رہا ہے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) شوکت قادر اس رائے سے متفق نظر آتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہ ہمیشہ سے ایک ہی ملک پر انحصار کرتی رہی ہے۔ سرد جنگ کے دوران ہم صرف مغربی کیمپ پر تکیہ کیے رہے جب کہ بھارت نے ایک طرف اپنے غیر جانبدار ہونے کا ڈھونگ رچایا تو دوسری طرف وہ ماسکو اور واشنگٹن دونوں سے فوائد بھی حاصل کرتا رہا۔ سابق صدر زرداری کے دور میں خارجہ پالیسی کے اس رخ کو بدلنے کی کوشش کی گئی، اور اس کوشش کو موجودہ حکومت نے بھی جاری رکھا۔ یہ ایک اچھا رجحان ہے۔ لیکن پہلے ہم صرف امریکا پر انحصار کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں لگنا چاہیے کہ ہم صرف بیجنگ پر ہی تکیہ کر رہے ہیں، بلکہ ہمیں سب ممالک سے بہتر تعلقات رکھنے چاہییں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہم روس سے پہلے ہی اسلحہ خرید رہے ہیں اور ان مشقوں کی خبر بھی پاکستان کے لیے اچھی ہے۔ خطے کے ممالک میں تعاون بڑھ رہا ہے۔ روس اور چین نے چار سو ستر بلین ڈالر کا ایک معاہدہ کیا ہے۔ امریکا نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ متبادل تلاش کرے۔ واشنگٹن نے حال ہی میں بھارت کے ساتھ ایک لاجسٹکس کا معاہدہ کیا ہے، جس کو پاکستان میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا۔ وہ چین مخالف پالیسی اپنا رہا ہے۔ واشنگٹن بیجنگ کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور بھارت کو نواز رہا ہے، جس پر اسلام آباد کبھی خوش نہیں ہو سکتا۔‘‘
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آنے والے برسوں میں ماسکو اور اسلام آباد کے مابین قربتیں مزید بڑھیں گی کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکا اس کی پریشانیوں اور مشکلات کو کسی خاطر میں نہیں لاتا اور پاکستان کو نئی دہلی اور کابل کے تناظر میں دیکھتا ہے، جس پر اسلام آباد کو واضح تشویش ہے۔