’پاکستان بے تکے بیانات سے پرہیز کرے‘: بھارت
29 مئی 2020بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ بھارت کے ایسے داخلی معاملات میں، جن کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اسے ٹانگ اڑانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
خیال رہے کہ اترپردیش کے شہر ایودھیا میں منہدم تاریخی بابری مسجد کی جگہ ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا کام منگل 26 مئی سے شروع ہوچکا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نریندر مودی نے اپنی حکومت کی پہلی مدت میں وزیر اعظم کے طورپر26 مئی 2014 کو ہی عہدے کا حلف لیا تھا۔ دوسری طرف ہندو منگل کے دن کو کافی متبرک مانتے ہیں۔ یہ دن بھگوان رام کے معاون خاص ہنومان سے منسوب ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مودی حکومت چاہتی ہے کہ رام مندر کی تعمیر 2024 میں اگلے عام انتخابات سے قبل مکمل ہوجائے تاکہ وہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھا سکے۔
پاکستان نے رام مندر کی تعمیر کے آغاز کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کا کہنا تھاکہ دنیا کووڈ 19 سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال سے دوچار ہے لیکن شدت پسند ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کی پروردہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت 'ہندوتوا‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔
عائشہ فاروقی کا مزید کہنا تھا”آر ایس ایس-بی جے پی کے زیر اثر آج کا بھارت 'ایک انتہا پسندانہ نظریہ سے دوچار ہے جو اقلیتوں کی سلامتی، خطے اور بیرون ملک امن و سلامتی کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ ہے‘۔ جبکہ 'گائے کو ذبح یا اسمگلنگ کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرنا، 'گھر واپسی '، 'لو جہاد'، اور 'کورونا جہاد' جیسے مذموم منصوبے دائیں بازو کے 'ہندوتوا' ایجنڈے کا حصہ ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ بھارت 'ہندو راشٹر' بننے کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا ”بابری مسجد، امتیازی سلوک پر مبنی شہریت ترمیمی قانون، شہریوں کے قومی رجسٹر کا آغاز اور فروری میں دہلی میں مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ اس بات کی واضح مثال ہے کہ بھارت میں مسلمان پسماندگی کا شکار ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔"
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے پاکستان کے بیان پر سخت ردعمل کرتے ہوئے کہا”ہم نے ایک ایسے معاملے میں پاکستان کا ایک بے تکا بیان دیکھا ہے جس سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اپنے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو اقلیتوں کا ذکر کرنے پر تو شرمندہ ہونا چاہیے۔"
پاکستان نے بابری مسجد کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ متنازعہ تھا اور 'انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے‘ میں ناکا م رہا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا کا اس حوالے سے کہنا تھا”بھارت ایک ایسا ملک ہے جو قانون کی حکمرانی کے اصول پر چلتا ہے اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ چاہے تو وقت نکال کر اپنا اور بھارت کے آئین کو پڑھ کر دونوں میں واضح فرق کو محسوس کرسکتا ہے۔"
واضح رہے کہ گزشتہ برس 9 نومبر کو بھارتی سپریم کورٹ نے 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ 'ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے‘۔
قانونی امور کے ماہرین نے بھارتی عدالت عظمی کے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔