دریائے سندھ میں کشتی ڈوبنے سے 20 افراد ہلاک متعدد لا پتہ
19 جولائی 2022پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ریسکیو ٹیموں نے گزشتہ رات تک کم از کم 20 لاشیں دریائے سندھ سے نکالی تھیں جبکہ بہت سے مزید افراد کے لا پتہ ہونے کا خدشہ ہے۔ تاہم رات میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے بچاو اور راحت کارروائی روک دینی پڑی، جو منگل کی صبح پھر سے شروع کر دی گئی ہے۔
گزشتہ شام صوبہ پنجاب کے رحیم یار خان شہر کے پاس دریائے سندھ میں کشتی ڈوبنے کا یہ واقعہ پیش آیا۔ مذکورہ کشتی میں درجنوں خواتین اور بچے سوار تھے اور سب شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ مقامی حکام کے مطابق دریا پار کرنے والی دو کشتیوں میں مجموعی طور پر تقریباً 150 افراد سوار تھے، جس میں سے ایک کشتی الٹ گئی۔
حکام کے مطابق ڈوبنے والی کشتی میں تقریباً 95 باراتی سوار تھے جو، مہمانوں کو دریائے سندھ کے اس پار لے کر جا رہی تھی، تاہم راستے میں ہی الٹ گئی۔ مقامی حکام نے بتایا کہ واقعے کے وقت اس کشتی میں گنجائش سے زیادہ لوگ سوار تھے۔
مقامی حکام نے یہ بھی بتایا کہ کشتی الٹنے کے بعد دوسری کشتی کے لوگوں نے تقریبا ًتیس افراد کی جان بچائی، جبکہ حادثے کے بعد بیس لاشیں نکالی گئیں، جس میں 19 خواتین ہیں۔ تین درجن افراد اب بھی لا پتہ بتائے جا رہے ہیں جن کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق صادق آباد ضلع میں مچھکہ گاؤں سے دریائے سندھ کے اس پار کھروڑ گاؤں کے لیے بارات جا رہی تھی۔ ایک مقامی حکومتی اہلکار کے مطابق کچھ لوگ تیر کر ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، جبکہ کچھ دیگرکو مقامی ماہی گیروں نے اور درجنوں افراد کو غوطہ خوروں نے بچا لیا۔
ضلع رحیم یار خان کے ایک امدادی افسر کے مطابق کشتی ڈوبنے کا واقعہ پیر کی دوپہر کے وقت پیش آیا تھا، تاہم امدادی کارکنان کو وہاں تک پہنچنے میں کافی وقت لگا کیونکہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہ کافی دور دراز علاقہ ہے۔
ان کے مطابق دشوار گزار راستہ ہونے کے ساتھ ہی جب آپریشن شروع کیا گیا تو دریا کا بہاؤ بھی بہت تیز تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تقریبا ًآٹھ گھنٹوں کی کوششوں کے بعد 20 لاشیں نکالی گئیں پھر اندھیرا ہونے کی وجہ سے صبح تک کے لیے آپریشن روک دیا گیا۔
ایک سرکاری اہلکار اسلم تسلیم نے مقامی ٹیلیویژن چینل جیو نیوز سے بات چیت میں کہا، ''ہم نے اب تک 20 لاشیں نکالی ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کشتی میں کتنے لوگ سوار تھے۔ ہم بس خاندان کے افراد کی باتوں کی بنیاد پر اندازہ لگا رہے ہیں۔''
پولیس افسر محمد حماد نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ''ڈوبنے والوں میں زیادہ تر خواتین دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ بیشتر مرد تیرنا جانتے تھے۔''
بر صغیر میں معاشرہ اب بھی قدرے قدامت پسند ہے اسی لیے جو رواج ہے اس کے تحت تیراکی سیکھنے کے لیے خواتین کو اتنی رسائی میسر نہیں جتنا کہ مردوں کو مواقع میسر ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)