پاکستان میں آباد کاری کے نئے منصوبے کی ضرورت:یورپی کمشنر
1 ستمبر 2010یورپی کمشنر نے کہا کہ حالیہ نا گہانی آفت ملک کے لئے بہت زیادہ تباہ کُن ثابت ہوئی ہے، تاہم پاکستان کو اب متاثرین کی بحالی کے ساتھ ساتھ تحفظ ماحول کے سلسلے میں مؤثر اقدامات کرنا چاہئیں۔ یورپی یونین نے اب تک پاکستان کو 70 ملین یورو کی امداد فراہم کی ہے جبکہ مختلف ممالک کی طرف سے فراہم کردہ امداد کو ملاکر یہ رقم 230 ملین بنتی ہے۔ تاہم یورپی یونین کے امدادی امور کی کمشنر کرسٹالینا گیورگیوا نے کہا ہے کہ حالیہ قدرتی آفت سے سبق حاصل کرتے ہوئے پاکستان کو آئندہ تحفظ ماحول کے سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ اُن کے بقول ’’پاکستان کو محض تعمیر نو پر توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ اس ملک میں نئے جنگلات کی کاشت کے ساتھ ساتھ آباد کاری کا ایک ایسا نیا منصوبہ تشکیل دینا چاہئے، جس کے تحت مقامی باشندوں کو رہنے کے لئے غیر موزوں علاقوں میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ حالیہ سیلاب کی لہریں اکثر ایسے مکانات کو بہا کر لے گئیں، جو نا مناسب جگہوں پر تعمیر کئے گئے تھے، ایسے علاقوں میں، جو با آسانی ناگہانی آفات کی زد میں آ سکتے تھے۔‘‘
یورپی کمیشن کی نظر میں کرسٹالینا گیورگی ایوا کے یہ مشاہدات غیر جانبدارانہ ہیں کیوں کہ وہ ضرورت مند انسانوں کی امداد کے اہم کاموں کی نگراں ہیں اور اُن کے اِن خیالات کے پیچھے کوئی سیاسی سوچ کارفرما نہیں ہے۔ تاہم یورپی یونین پاکستان کے اندر اور افغانستان سے آنے والے مسلم انتہا پسندوں کی موجودگی کے بارے میں متفکر ضرور ہے۔ یورپی سطح پر اس بارے میں تشویش پائی جاتی ہے کہ مسلم انتہا پسند پاکستان کی حالیہ صورتحال کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور اس طرح جنوبی ایشیا کی یہ جوہری طاقت غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔ کرسٹالینا گیورگی ایوا کے مطابق اس تناظر میں یورپی یونین کی پاکستان کے لئے امداد کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ انہوں نے کہا ’ سیلاب زدگان کو اس وقت فوری امداد کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ اِس امداد کے ذریعے پاکستان سے انتہاپسندی کے خاتمے اور جمہوریت کے فروغ میں مدد ملے۔ خاص طور سے اگر ہم کوشش کریں کہ غیر ملکی امدادی رقوم کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کے اندر جمع ہونے والے پیسوں سے متاثرین کی امداد کے لئے ہونے والے کاموں کو شفاف اور منصفانہ بنایا جائے‘۔
گزشتہ روز یورپی یونین کے برسلز میں منعقدہ اجلاس میں پاکستان کے یورپی یونین متعینہ سفیر جلیل عباس بھی موجود تھے۔ انہوں نے پاکستان کے لئے یورپی یونین کی امداد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، انہیں اس بات کا علم ہے کہ یورپی یونین کے وسائل، خاص طور سے ہیٹی کے زلزلے کے بعد سے لا محدود نہیں ہیں تاہم وہ مالی امداد کے بجائے دیگر اقدامات کے ذریعے بھی پاکستان کی مدد کر سکتی ہے۔ جلیل عباس جیلانی کا کہنا ہے کہ عالمی برادری اور یورپی یونین پاکستانی مصنوعات کے لئے اپنی منڈیاں کھول کر بھی اُس کی مدد کر سکتی ہے۔ اس طرح پاکستان کی معیشت کو تقویت ملے گی اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ اور روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہوں گے۔ اس طرح سیلاب سے تباہ ملک کی ضروریات پوری ہو سکیں گی‘۔
یورپی یونین اور پاکستان کے مابین تجارتی مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ یورپی یونین کے نمائندوں کے خیال میں تجارتی معاملات میں جنوبی ایشیا کے خطے میں پاکستان کو دیگر ممالک پر فوقیت نہیں دی جانی چاہئے بلکہ پاکستان کے اقتصادی مسائل کا کوئی جامع حل تلاش کیا جانا چاہئے۔ اُدھر بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے اس بارے میں شکایت کی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے خوفناک ترین سیلاب کے بعد دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح یورپی ملکوں نے بھی پاکستان کی طرف سے امداد کی اپیلوں پر بہت تاخیر سے کان دھرا۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی