پاکستان میں آٹزم کے شکار افراد کا دوہرا المیہ
21 نومبر 2023آٹزم کہلانے والے ذہنی مرض کا پورا نام آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر (ASD) ہے، جسے طبی اصطلاح میں آٹزم سپیکٹرم کنڈیشن (ASC) بھی کہتے ہیں۔ اس بیماری کے مریض زیادہ تر جینیاتی وجوہات کے باعث اس کا شکار ہوتے ہیں اور یہ متاثرہ جینز والے والدین سے ان کے بچوں میں آسانی سے منتقل ہونے والی ایک موروثی طبی حالت ہوتی ہے۔
آٹزم کا علاج، عالمی ایوارڈ پاکستانی ایجاد کے نام
بین الاقوامی سطح پر کسی بھی بچے میں اس ذہنی طبی حالت کے اولین آثار عموماﹰ ڈیڑھ سال سے لے کر تین سال تک کی عمر میں واضح ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں بھی مجموعی طور پر لاکھوں بالغ اور نابالغ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔
پاکستان میں آٹسٹک افراد کی سماجی قبولیت نہ ہونے کے برابر
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آٹزم کا شکار یا آٹسٹک افراد کی بہت بڑی اکثریت کو دوہرے المیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک المیہ بیماری کی وجہ سے ان کی وہ ذہنی حالت ہوتی ہے، جس پر ان کا اپنا کوئی دانستہ اختیار نہیں ہوتا۔ دوسرا المیہ اس مرض اور اس کے مریضوں سے جڑے وہ سماجی رویے اور طبی سہولیات کی کمی ہوتے ہیں، جو بروقت تشخیص اور تسلی بخش علاج کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشروں میں آٹسٹک افراد کی سماجی قبولیت کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں آٹزم کی بیماری کی مجموعی صورت حال جاننے کے لیے ہم نے رابطہ کیا کلینیکل سائیکالوجسٹ اور تھیراپسٹ صوفیہ بخاری سے، جو گزشتہ آٹھ سال سے راولپنڈی میں قائم آٹزم ریسورس سینٹر سے منسلک ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''آٹزم کا مرض بچوں میں تین طرح کے ذہنی رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے: زبان سیکھنے کی صلاحیت، سماجی رابطوں کی صلاحیت اور کوئی بھی کھیل کھیلنے کی صلاحیت۔ ہمارے سینٹر میں 142 بچے ہیں، جن میں سے 107 لڑکے ہیں اور 35 لڑکیاں۔ ہمارے پاس آنے والے 70 فیصد بچے ذہنی صلاحیتوں کی کمی یا معذوری کے ساتھ آتے ہیں، جن میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ان بچوں کا علاج کئی طرح کی تھیراپی کے ذریعے کیا جاتا ہے اور ان کی سپورٹس کی صلاحیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔‘‘
آٹزم کی صرف کوئی ایک خاص وجہ ہی نہیں ہوتی
صوفیہ بخاری کے مطابق اس مرض کی صرف کوئی ایک خاص وجہ ہی نہیں ہوتی بلکہ طبی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ اس کا تعلق چند جینیاتی عوامل اور مریضوں کے عمومی ماحول سے بھی ہو سکتا ہے۔ ہر مریض میں اس کے اسباب مختلف اور متنوع ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ''آٹزم میں ابتدائی چند سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ بروقت تشخیص نہ ہونے سے پورا جسم متاثر ہوتا ہے، اس لیے فوری علاج بےحد ضروری ہوتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ جن بچوں کو کئی سالہ علاج کے بعد عام تعلیمی اداروں میں بھیجا جاتا ہے، وہاں ان سے اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ اس مسئلے کے تدارک کے لیے ٹیچرز ٹریننگ پروگراموں کی بھی ضرورت ہے اور تعلیمی اداروں میں اسپیشل بچوں سے متعلق مواد کی نصاب میں شمولیت کی بھی۔‘‘
کیا آپ نے دنیا کو کبھی کسی آٹسٹ انسان کی نظروں سے دیکھا ہے؟
کیا پاکستانی معاشرہ آٹسٹک افراد کے حوالے سے کافی حد تک انسان دوست بھی ہے؟ اس سوال کے جواب میں صوفیہ بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا معاشرہ اس حوالے سے بالکل بھی انسان دوست نہیں ہے۔ عمومی صورت حال تشویش ناک ہے۔ ایسے بچوں کا ہمدردی سے خیال رکھنے اور ان کے گھرانوں کی معاونت کرنے کے بجائے، انہیں ہر وقت عجیب طرح کے سوالات کا سامنا رہتا ہے۔ اسی لیے ایسے والدین اپنے آٹسٹک بچوں کے ساتھ گھروں سے باہر نکلنے سے کتراتے ہیں۔ کئی واقعات میں تو آٹسٹک بچوں کے والدین کے لیے کرائے پر کوئی گھر حاصل کرنا بھی کڑا امتحان بن جاتا ہے۔ ہم نے خود اپنے ریسورس سینٹر کی ایک نئی شاخ قائم کی، لیکن ہمیں اسے ایک ہفتے کے اندر اندر دوسری جگہ منتقل کرنا پڑ گیا۔ وجہ یہ تھی کہ پڑوس میں کسی نے شکایت کر دی تھی کہ سینٹر میں موجود بچے بہت شور کرتے ہیں۔‘‘
آٹسٹک بچوں کے والدین کے مسائل
ڈی ڈبلیو نے راولپنڈی میں دس سال سے قائم اس آٹزم ریسورس سینٹر کی ڈائریکٹرغزل ندیم سے بھی تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا، ''میرے دو بچے ہیں، جن کی عمریں اب 24 اور 17 برس ہیں۔ جب مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ میرے بچے آٹسٹک ہیں، تو میں اس مرض کے بارے میں کم جانتی تھی۔ میرے بچوں کی تعلیم و تربیت اور علاج تک کا ہر مرحلہ بہت کٹھن تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ پاکستانی معاشرے میں آٹسٹک بچوں اور ان کے گھرانوں کو کیسی کیسی مشکلات پیش آتی ہیں، تو چند ایسے افراد جن کے بچے آٹزم کا شکار تھے، ان کے ساتھ مل کر ہم نے 2010ء میں اس غیر کاروباری ادارے کی بنیاد رکھی۔ آج ہمارے اس ادارے میں 100 سے زائد بچے ہیں، جن کو کئی طرح کی سروس مہیا کی جاتی ہے اور مختلف عمروں کے مریضوں کے تین گروپوں کے لیے تین مختلف پروگرام ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔‘‘
آٹسٹ لوگ اچھے ملازمین ہو سکتے ہیں
ہر 42 بچوں میں سے ایک آٹسٹک
غزل ندیم نے بتایا کہ ان کے ادارے میں صرف 30 فیصد بچوں کے والدین ہی فیس ادا کر سکتے ہیں، جس کا مجموعہ صرف 47 ہزار روپے ماہانہ بنتا ہے۔ لیکن اس ادارے کی طرف سے اس کے تمام مریضوں کی دیکھ بھال پر ماہانہ قریب دس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں، جن کا انتظام نجی طور پر کیا جاتا ہے اور کسی بھی سرکاری ادارے نے آج تک اس سینٹر کی کوئی مدد نہیں کی۔
نفسیاتی بیماری ’آٹزم‘ کا عالمی دن
پاکستان میں سماجی سطح پر آٹزم کے ماضی اور حال کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں غزل ندیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب ہم نے اس شعبے میں کام شروع کیا تھا، تو اس وقت ہر 148 بچوں میں سے ایک آٹسٹک ہوتا تھا۔ آج یہی شرح ہر 42 بچوں میں سے ایک ہو چکی ہے، جن میں سے زیادہ تر لڑکے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے ادارے سے کامیاب علاج کے بعد بچوں کو مین سٹریم سکولوں میں بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے ایک مقامی سکول ہم سے تعاون کر رہا تھا۔ اب لیکن اس سکول نے بھی ہمارے بچوں کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ تو کڑوا سچ یہ ہے کہ جب تک پاکستانی معاشرہ ایسے بچوں کو کھلے دل سے قبول نہیں کرتا، ہمارے لیے اس چیلنج سے نمٹنا بہت ہی مشکل ہے۔‘‘
آٹسٹک بچوں میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے بہت زیادہ
خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کی امارت عجمان میں قائم ہوپ ری ہیبیلیٹیشن سینٹر کی بانی اور چیف ایگزیکٹیو سیدہ نیلم گیلانی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''20 اپریل 2019ء کو جب میرا بیٹا اشعر گیلانی تقریباﹰ 17 ماہ کا تھا، مجھے محسوس ہوا کہ میرے بیٹے کی سیکھنے کی صلاحیت قدرے کم ہے۔ تھیراپسٹ کو ملے تو علم ہوا کہ بیٹا باڈر لائن اے ایس ڈی مریض ہے۔ فوری علاج شروع ہوا اور دو سال کے علاج سے بہت بہتری آئی۔ پھر بھی پاکستان میں میرے بیٹے کو کسی بھی مین سٹریم سکول میں داخلہ نہیں ملا تھا۔ پھر میری فیملی عجمان شفٹ ہوئی تو وہاں علاج بہت مہنگا تھا۔ صرف ایک تھیراپی سیشن کی فیس 500 درہم تھی۔ اس لیے آج سے ڈیڑھ سال پہلے میں نے ہوپ ری ہیبیلیٹیشن سینٹر کی بنیاد رکھی، جہاں اب بہت مناسب فیس پر مریضوں کا بہترین علاج کیا جاتا ہے۔‘‘
آٹزم کے شکار افراد کے ليے نئی ايپليکيشن
سیدہ نیلم گیلانی نے بتایا کہ ان کے سینٹر میں 40 کے قریب بچے ہیں، جن میں سے 35 لڑکے ہیں اور لڑکیاں صرف پانچ۔ ان بچوں کو ماہرین کی نگرانی میں علاج کے بعد مین سٹریم سکولوں میں بھیجا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ کہ خود سیدہ نیلم گیلانی کا اپنا بیٹا اشعر بھی، جو اب چھ سال کا ہے، ایک مین سٹریم سکول میں پڑھتا ہے۔
انہوں نے پاکستان میں آٹزم کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان میں بھی یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس لیے وہاں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ آٹسٹک بچوں کی معاشرے میں قبولیت کا ہے۔‘‘
آٹسٹک بچے 'ابنارمل نہیں‘ ہوتے
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ایک نجی سکول کی ڈائریکٹر عینی ملک نے اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ان کے ادارے میں 20 فیصد بچے آٹسٹک بھی لیے جاتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ہاں عام سماجی تاثر یہ ہے کہ کوئی ڈس آرڈر صرف آٹزم ہی ہوتا ہے۔ حالانکہ ڈس آرڈرز کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ہمارے سکول میں آنے والے سپیشل بچوں میں سے 90 فیصد لڑکے ہوتے ہیں اور صرف 10 فیصد لڑکیاں۔ ہمارے ہاں بچے بچیوں کی کل تعداد میں سے آٹسٹک بچے 20 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے لیے خصوصی تربیت یافتہ ٹیچرز درکار ہوتی ہیں۔ ہمارے سکول کے علاوہ اسلام آباد میں صرف اسلامک انٹرنیشنل اسکول ایسا ہے، جو اپنے ہاں آٹسٹک بچے بھی داخل کرتا ہے۔ دیگر تمام سکولوں میں ایسے بچے داخل کرانا بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
موسیقی ہماری صحت بہتر بنانے کے لیے کیسے کام کرتی ہے؟
عینی ملک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''ایسے بچے ابنارمل نہیں ہوتے۔ یوں سمجھیے کہ ان کی برین وائرنگ کچھ مختلف ہوتی ہے اور اسی لیے وہ مختلف ذہنی استعداد کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ بھی اچھی طرح سمجھا جانا چاہیے کہ آٹزم کوئی لاعلاج مرض ہرگز نہیں۔ بروقت علاج، تسلسل سے تھیراپی، بہتر نگہداشت اور بھرپور توجہ سے بہت اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔‘‘