پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ
29 ستمبر 2011امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ کی جانب سے پاکستان پر افغان عسکریت پسندوں کی مدد کے حالیہ الزامات اور ذرائع ابلاغ میں ممکنہ امریکی حملے کے خطرات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے بعد پاکستان میں اس کے ردعمل کے طور پر قوم پرستی کے جذبات غالب آ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس بات پر کسی بحث کی امید ختم ہو گئی ہے کہ پاکستانی فوج طویل عرصے سے خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے جہادی گروپوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔
ادارے کے مطابق اس ردعمل سے امریکہ کو درپیش مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ واشنگٹن کی جانب سے سخت بیانات کے نتیجے میں پاکستان میں منفی عوامی ردعمل پیدا ہوتا ہے اور عسکریت پسندوں کے خلاف سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کے اتحاد کو ایک عشرہ گزر جانے کے بعد بھی پاکستانی عوام میں امریکی عزائم کے بارے میں گہرے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں امریکہ پاکستان کے حصے بخرے کر کے اس کے جوہری ہتھیاروں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں آئے دن ہونے والے بم دھماکوں کے باوجود اسلامی عسکریت پسندوں کے خطرے کے خلاف بھی اتحاد کی کمی ہے۔
پاکستان میں یہ ردعمل امریکی رہنماؤں کی جانب سے تند و تیز بیانات کے حالیہ سلسلے کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی فوج کے سربراہ مائیک مولن نے کیپیٹل ہل میں دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف برسر پیکار حقانی نیٹ ورک پاکستان کی اعلٰی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا بازو ہے۔ مولن اور دیگر اعلٰی امریکی حکام نے کہا تھا کہ امریکہ اپنا دفاع کرنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرے گا جس کے بعد قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ امریکہ پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان میں فوج تعینات کر سکتا ہے۔
بہت سے تجزیہ کاروں کے خیال میں امریکہ ایسا قدم نہیں اٹھائے گا کیونکہ اس سے خطے میں اس کے طویل المیعاد مفادات کو زک پہنچ سکتی ہے۔ مگر پاکستان کے ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کرنے والے دائیں بازو کے سیاست دان اور ریٹائرڈ فوجی حضرات اپنے تجزیوں میں کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی سرزمین پر امریکی بوٹوں کی چاپ سن رہے ہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر کی نمائندہ سنی اتحاد کونسل نے تو پاکستان پر حملے کی صورت میں امریکہ کے خلاف جہاد کرنے کا بیان دے دیا ہے۔
پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ دو مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی کےبعد سامنے آیا، جس میں امریکی فوج کے ہاتھوں پاکستانی سرزمین کی پامالی پر احتجاج کیا گیا، تاہم اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں کیا کر رہا تھا۔
پاکستان میں اس حوالے سے بہت کم بحث ہو رہی ہے کہ آیا پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کو اپنے ملک کے بعض علاقوں میں آزادی سے سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔ یہ بات حیران کن ہے کیونکہ نظریاتی طور پر حقانی نیٹ ورک اور طالبان ایک دوسرے سے مربوط ہیں جبکہ پاکستان میں ہونے والے اکثر دہشت گردانہ حملوں میں طالبان ملوث ہوتے ہیں۔
رواں ہفتے چین کے نائب وزیر اعظم مینگ جیان ژو کے دورہ پاکستان کے بعد ذرائع ابلاغ اور سیاست دانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے بعد بیجنگ پاکستان کی مدد کرنا شروع کر دے گا۔
تاہم اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ امید خام خیالی پر مبنی ہے کیونکہ بیجنگ بھی بین الاقوامی برادری کے ان خدشات میں شریک ہے کہ پاکستان دہشت گرد گروپوں کی ایک محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔ علاوہ ازیں چین کا آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر وہ اثر و رسوخ نہیں ہو سکتا جو امریکہ کا ہے۔
ایک آزاد خیال سیاسی تجزیہ کار اور کالم نگار سائرل المیدیا کا کہنا ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں مبینہ امریکی خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے کیونکہ عوام انہی باتوں کو سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کے بقول امریکہ کے ساتھ تعلقات توڑنے کے خواہاں افراد کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ امریکہ سے اربوں ڈالر کی امداد وصول کرنے والی فوج نے اس پر اپنا ردعمل محتاط رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب تو فوج ایسا ردعمل ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو شکوک کا شکار اور قدامت پسند عوام کو مطمئن کر سکے تو دوسری جانب اسے یہ احساس ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امتیاز احمد