پاکستان میں انسانی حقوق: امریکی رپورٹ پرستائش بھی تنقید بھی
25 اپریل 2024
دوہزار تئیس ''ہیومن رائٹس پریکٹسز رپورٹ‘‘ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے تئیس اپریل کو جاری کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2023ء کے دوران انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے پاکستان میں کوئی اہم تبدیلی نہیں آئی اور دو ہزار تئیس میں بھی انسانی حقوق کے حوالے سے کئی خلاف ورزیاں جاری رہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے لیکن دوسری طرف اس رپورٹ کو امریکہ کی دوہری پالیسی کا عکاس بھی قرار دیا جارہا ہے اور اس پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔
رپورٹ کے مندرجات
رپورٹ میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، تشدد، اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں، جیل کی صورتحال، ماورائے قانون حراستیں، سیاسی بنیادوں پر لوگوں کی پکڑ دھکڑ، لوگوں کی نجی معاملات میں غیر قانونی مداخلت، کسی شہری کے مبینہ جرم کی پاداش میں اس کے گھر کے افراد کو سزا، جنگ زدہ علاقوں میں اختیارات کا غلط استعمال، آزادی اظہار رائے، میڈیا اور صحافیوں پر قدغنیں اور دیگر کئی موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
رپورٹ جامع ہے
انسانی حقوق کی معروف کارکن اور سابق چیئر پرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ انتہائی جامع ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' تقریباً تمام حکومتوں نے اس طرح کی بین الاقوامی رپورٹوں کو نظر انداز کیا ہے یا ان میں پیش کیے گئے حقائق پر سوالات اٹھائے ہیں۔ پاکستان انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتا۔‘‘
جبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والی سمی دین بلوچ کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 2023 ء میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل بڑھ گئے ہیں۔ جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے اور بلوچ عوام کے انسانی حقوق کو پیروں تلے روندا گیا ہے۔‘‘
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال سے اس رپورٹ کے مندرجات انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے درست ہیں۔ ہمارے ملک میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے اور سیاسی حکومتیں اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اپنی بے بسی ظاہر کرتی ہیں۔‘‘
آمنہ مسعود جنجوعہ اور زہرہ یوسف دونوں کا ہی یہ خیال ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیچھے ایک بہت اہم عنصر پاکستان کے جاسوسی اداروں کا یہ تصور ہے کہ وہ کسی بھی آئین و قانون سے ماورا ہیں۔
رپورٹ کا خیرمقدم
بلوچستان سے جبری گمشدگی کے لیے کام کرنے والے ماما قدیر کا کہنا ہے کہ وہ اس امریکی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ایک اچھی بات ہے کہ امریکہ پاکستان میں انسانی حقوق کی ہونے والی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے رہا ہے لیکن ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری رپورٹس سے اگے نکلے اور اپنے اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے روکے۔‘‘
سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ بین الاقوامی برادری پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے رہی ہے۔ ''ہم اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری جبری گمشدیوں کو ختم کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھائے گی۔‘‘
امریکہ کا دوہرہ معیار
دوسری طرف اس امریکی رپورٹ پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان جان اچکزئی نے اس رپورٹ کو امریکہ کا دوہرہ معیار قرار دیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''افغان طالبان انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں لیکن امریکہ ان کے حمایت کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح امریکہ مودی سرکار کا بھی حمایتی ہے جو مسلمانوں اور کشمیریوں کے حقوق کی سخت خلاف ورزی کر رہا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کا بطور ہتھیار استعمال
پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکہ اعزاز احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ تمام ممالک کو انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔ تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انسانی حقوق کو ایک پالیسی کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اعزاز احمد چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو انسانی حقوق کے حوالے سے تمام معیارات پر پورا اتر رہا ہو چاہے وہ انڈیا ہو یا اسرائیل یا کوئی اور۔‘‘
اعزاز احمد چوہدری کے مطابق امریکہ انسانی حقوق کو ایک پالیسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمارے ملک میں پارلیمنٹ اور دوسرے ادارے موجود ہیں۔ اگر انسانی حقوق کے حوالے سے کچھ کرنا ہے تو کسی پہ انگلی اٹھانے کی بجائے ان مسائل کو ہیومن رائٹس کونسل میں لایا جانا چاہیے اور یونیورسل پریاڈک ریویو میں ان پر بات چیت کی جانی چاہیے۔‘‘
حکومت کی ٹال مٹول
ڈی ڈبلیو نے حکومتی موقف جاننے کے لیے جب وزارت انسانی حقوق کے سکریٹری اے ڈی خواجہ سے رابطہ کیا تو پہلے انہوں نے مشورہ دیا کہ دفتر خارجہ سے رابطہ کیا جائے اور بعد میں انہوں نے کہا کہ وہ ڈی ڈبلیو کے سوالات کے جوابات بھیجیں گے لیکن اس رپورٹ کو فائل کرنے تک انہوں نے وہ جوابات نہیں بھیجے۔
ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق اعظم نذیر تارڑ سے بھی رابطہ کیا اور ان کو سوالات بھی بھیجے لیکن ان کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آیا۔ تاہم دفتر خارجہ کے ایک افسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ترجمان دفتر خارجہ اس وقت مصروف ہیں اس لیے وہ بات نہیں کر سکتی۔‘‘