پاکستان میں شناختی کارڈ سے محروم لاکھوں افراد مشکلات کا شکار
26 جولائی 2022پاکستان میں قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے کوشاں لاکھوں افراد کو امید ہوگئی تھی کہ گزشتہ برس آئے ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ان کی مشکلات کا خاتمہ ہو سکے گا تاہم کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی ان کی پریشانی کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تین سال تک اپنا ڈیجیٹل قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے کی متعدد کوششوں میں ناکامی کے بعد کراچی کی رہائشی روبینہ نے اپنی اس جنگ کو عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ روبینہ کی اس کوشش کے نتیجے میں عدالت نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا۔ اس وقت تک پاکستانی شہری اپنے والد کا شناختی کارڈ پیش کر نے تک اپنا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) حاصل نہیں کر سکے تھے۔ یہ کارڈ ووٹ ڈالنے سے لے کر سرکاری اسکولوں میں داخلے اور صحت کی دیکھ بھال سمیت سرکاری فوائد تک رسائی، بینک اکاؤنٹ کھولنے یا ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کے لیے ناگزیر ہے۔
پاکستان کی سوا کروڑ خواتین، جو ’ہیں، پر نہیں ہیں‘
اکیس سالہ روبینہ کا کہنا ہے کہ ''جب بھی میں اپنا شناختی کارڈ لینے جاتی مجھےکہا جاتا کہ میں اپنے والد کا کارڈ لے کر آؤں۔‘‘ روبینہ نے مزید کہا کہ ''میری ماں نے میری پرورش اس وقت کی جب میرے والد نے میری پیدائش کے فوراﹰ بعد ہمیں چھوڑ دیا۔ میں اس کے شناختی کاغذات کیسے پیش کر سکتی ہوں؟‘‘
روبینہ کی مایوسی نے انہیں صوبہ سندھ کی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے پر مجبور کیا۔ عدالت نے گزشتہ برس نومبر میں فیصلہ سناتے ہوئے شناختی کارڈ کے نگران سرکاری ادارے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو حکم دیا کہ وہ روبینہ کو ان کی والدہ کی شہریت کے ریکارڈ کی بنیاد پر شناختی کارڈ جاری کرے۔ روبینہ کے لیے اس فیصلے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنی والدہ کی ریٹائرمنٹ کی صورت میں ان کی جگہ محکمہ تعلیم میں بطور آیا ملازمت کی درخواست دے سکتی ہیں۔
پاکستانی مذہبی گروپ جنسی تبدیلی کے قانون میں ترمیم کے خواہش مند
ایک غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق کے مطابق وسیع تناظر میں اس عدالتی فیصلے سے اکیلی ماؤں کے بچوں کو قومی شناختی کارڈ کی اسکیم سے باہر رکھنے کے عمل کا بھی مؤثر انداز میں خاتمہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سی این آئی سی کے بغیر نہ تو کسی عوامی خدمت تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی بینکنگ لین دین کیا جا سکتا ہے مختصر طور پر کہا جاسکتا ہے کہ شناختی کارڈ کے بغیر آپ کو ایک شہری کو ملنے والے حقوق میں سے کوئی بھی حق حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
نادارا حکام کاکہنا ہے کہ ادارہ ایسے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے جنہیں والد کا شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا شناختی کارڈ حاصل کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔
وزیر اعظم کے اسٹریٹجک اصلاحات یونٹ منصوبے کے سربراہ سلمان صوفی کا کہنا ہے کہ ''حکومت کی واضح پالیسی ہے کہ جن لوگوں کو ڈیٹا بیس میں رجسٹرڈ ہونا ہے انہیں خارج نہیں کیا جائے گا۔‘‘
'خلائی مخلوق‘
سن 2000 میں اپنے قیام کے بعد سے نادرا قومی بائیومیٹرک ڈیٹا بیس کا انتظام سنبھالتی ہے۔ نادرا اب تک 212 ملین کی آبادی والے ملک میں 96 فیصد بالغ افراد کو 120 ملین شناختی کارڈ جاری کر چکی ہے۔ ہر کارڈ میں 13 ہندسوں کی منفرد آئی ڈی، کارڈ ہولڈرکی تصویر، اس کے دستخط اور مائیکرو چپ شامل ہوتی ہے جس میں اس کی آنکھوں کے رنگ اور فنگر پرنٹس جیسی معلومات محفوظ ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں خواتین، ٹرانسجینڈر افراد، تارکین وطن کارکنوں اور خانہ بدوش برادریوں سمیت لاکھوں افراد اب بھی سی این آئی سی سے محروم ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد کے پاس اپنی شناخت ثابت کرنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ گزشتہ سال ایچ آر سی پی کی جانب سے کراچی میں تارکین وطن کارکنوں کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ خواتین کے پاس سی این آئی سی نہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اگر ان کا شوہر مر جاتا ہے یا انہیں خاندان والے چھوڑ دیتےہیں تو انہیں بدحالی کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
ش ر / آ ع ( تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)